The news is by your side.

معاشرے کے خاموش مگر زندہ کردار

ناظمہ اورمیں دونوں ہی دفتر سے واپسی پر اس طرح خوش ہوتے ہیں جس طرح بچے سکول سے گھر آتے ہوئے پرجوش ہو جاتے ہیں ۔ خیر اس دن ہمیں جلدی گاڑی مل گئی تو سامنے جاتے ہوئے ایک ٹرک کے پیچھے لکھے ہوئے چندSilent lettersدیکھ کر میرے ذہن میں خیال آیا کہ بچپن میں آپ سب نے بھی میری طرح حروف ساکن پڑھے ہوں گے جیسے مثال کے طور پرKnife, umbrella وغیرہ وغیرہ .

اگرچہ کہ ان الفاظ کی ادائیگی نہیں کی جاتی لیکن اگر یہ جملوں میں موجود نہ ہوں تو معانی و مفہوم بھی تبدیل ہو جاتے ہیں اور کسی بھی لفظ کی کوئی اہمیت نہیں رہتی ۔ اگر ہم غور کریں تو ہمارے معاشرے میں بھی بہت سے کردار حروف ساکن کی طرح بکھرے ہوئے ہیں ۔

آئیے چند ایسے ہی خاموش کرداروں سے آج ہم ملتے ہیں ۔ ہمارے دفتر میں ایک مالی ہیں ، ان کی تنخواہ تو بہت معمولی سہی لیکن ان کا جذبہ جواں ہے ۔ جتنی محنت وہ سارا دن کرتے ہیں اور لان کی خوب صورتی میں چار چاند لگا دیتے ہیں اس کے مقابلے میں ان کی خدمات کا دس فیصد حصہ نہیں ملتا ۔لیکن وہ خوش ہیں ایک دن مجھے کہنے لگے کہ’’ دیکھو بیٹا مالی کا کام صرف پودے لگانا ہے اور اس کا پھل کھانا تو شاید ہی اس کی قسمت میں ہو۔ لیکن میں اس لئے خوش ہوں کہ چلو میرا وجود ناکارہ نہیں اورمیری محنت کسی کے کام آرہی ہے ۔‘‘

اسی طرح ایک دن میں اپنی چچا زاد کے ساتھ بازار میں تھی اور راستے میں چند کیلے کے چھلکے پڑے تھے جنہیں میری کزن نے اٹھا کر ایک کوڑے دان میں پھینک دیا وہاں موجود ایک راہگیر نے ہمیں کہا ’’جناب چھوڑیں یہ آپکا کام نہیں ۔‘‘ لیکن کیا جس شخص نے وہاں گندگی پھیلائی کیا یہ اس کا کام نہیں تھا ؟ کیلے کے چھلکے اٹھانے بطور ایک خاموش مگر زندہ کردار ہمارا فرض تھا کیونکہ اس سے گر کر کوئی بھی زخمی ہو سکتا تھا۔

ہمارے پرانے دفتر میں بھی ایک ایسا ہی کردار تھا ، ایک کولیگ نہ صرف بہت محنت سے اپنا کام کرتے تھے بلکہ کئی دفعہ مجبوری میں بغیر احساس دلائے ہوئے کئی دیگر ساتھیوں کا بھی کام کر دیتے تھے ، اگر انھیں شکریہ کہا جاتا تو بس مسکرا کے اتنا ہی کہہ دیتے کہ کوئی بات نہیں ہم لوگ ایک ٹیم کی طرح ہیں کبھی میں بھی تو نہیں ہوں گا ، آپ لوگ میرے حصے کا بھی کام کر دیجئے گا۔

دین اسلام میں بھی ایسے نیکی کے کاموں کی خفیہ اور اعلانیہ تاکید ہے ، ہمارے نبی اکرم صلی اللہ و علیہہ وآلہ وسلم ، ان کے اہلبیت اطہار اور صحابہ کرام بھی اسی طرح غربا اور مساکین کی مدد کرتے تھے کہ سفید پوشوں کا بھرم بھی قائم رہتا تھا اور خوشنودی رب جلیل کا بھی بندوبست ہو جاتا تھا۔

میں نے کہیں پڑھا تھا کہ جو ظرف خالی ہوتا ہے وہی صدا دیتا ہے اور جس میں کوئی خوبی ہوتی ہے اس کی خاموشی ہی اسکی صلاحیت کے اظہار کا ذریعہ ہوتی ہے ۔ معاشرے کے یہ افراد بھی خاموش تو ہیں لیکن بےضمیر نہیں ہیں کیونکہ وہ بیدار ہیں ۔ زندگی ہی ان خاموش کرداروں کی وجہ سے ہے ، حروف ساکن کے بغیر جس طرح گرائمر نامکمل ہے بالکل اسی طرح ان افراد کے بغیر کائنات کا وجود بے کار ہے ۔

یہ اپنے اچھے عمل کی تشہیر نہیں کرتے ، نہ ہی انٹرویو دینا چاہتے ہیں اور نہ ہی اخبارات میں فوٹو چھپوانا چاہتے ہیں ، یہ کم شہرت یافتہ تو ہیں لیکن زندگی کی اصل رونق اور خوب صورتی ہیں ، یہ معروف افراد نہیں ہیں لیکن ان لوگوں سےبہت بہتر ہیں جو لہو لگا کر شہیدوں میں مل جاتے ہیں ۔ یہ تو گمنام سپاہی ہیں جو اپنا فرض فرض اور عبادت سمجھ کر پورا کر رہے ہیں ، کوئی انھیں سراہے یا نہ سراہے ان کی خدمات کا صلہ دے یا نہیں دے ، انھیں اس سے کوئی غرض نہیں کیونکہ یہ بات ذہن نشین رکھتے ہیں کہ وہ پاکستان سے کتنے مخلص ہیں ۔

ان خاموش کرداروں میں آپ کے محلے میں کام کرنے والے خاکروب بھی ہیں ، راتوں کو جاگ کر اپنی جان کو خطرے میں ڈالنے والا چوکیدار بھی ہے ، دفتر میں آپ کا ہاتھ بٹانے والا کولیگ بھی ، آپ کے دفتر کا آفس بوائے ، آپ کے بچوں کو سکول چھوڑنے والا ڈرائیور ، بوٹ پالش کرنے والا ، آپ کی پروا کرنے والی ماں ، ایک سچ لکھتا ہوا قلیل تنخواہ پانے والا صحافی بھی ہے ۔ یہ سب خاموش لیکن زندہ کردار ہیں ۔

یہ سب زندہ کردار آپ کی زندگیوں کو آسان بناتے ہیں لیکن بغیر کسی تعریف و توصیف کے ، بغیر کسی ستائش ، لالچ اور طمع کے ۔ یہ کردار میں بھی بن سکتی ہوں ، یہ کردار آپ بھی بن سکتے ہیں ۔ کوئی اور بھی ہماری وجہ سے بن سکتا ہے ۔

احمد فرازنے ایک بار کہا تھا کہ

شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے
اس کی وہ جانے اسے پاس وفا تھا کہ نہ تھا
تم فراز اپنی طرف سے تو نبھاتے جاتے

آپ اپنے اردگرد دیکھیں آپ کو ایسے کئی حسین کردار ملیں گے جنہوں نے نہ صرف اپنا کردار نبھایا ہے بلکہ کئی ان دیکھے دیے جلا کر آپ کی حیات کو بھی منور کر دیا ہے ۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں