دنیا کا کوئی بھی حکمران ہو‘ بڑے بڑے جلسے جلوس‘ تقریبات میں سب ہی عوام کہ بھلائی کی بات کرتے ہیں‘چھوٹے شہروں کو بڑے شہروں کے طرز کی ترقی اور ساتھ لاکھڑا کرنے کی بات کرتے ہیں مگر افسوس سب بات ہی کرتے ہیں۔ جب ہمارے حکمرانوں اور سیاستدانوں کو اپنی نااہلی کی وجہ سے مشکلات درپیش آرہی ہوں‘ عوامی حمایت کو ظاہر کرنا ہو یا پھر انتخابات کا موقع ہو تو سب کی جانب سے اعلان اور دعوے کیے جاتے ہیں ‘شہروں قصبوں کو ترقی دینے اور غریبوں کی غربت اور بے روزگار کی بے روزگاری ختم کرنے کا وعدہ کیا جاتا ہے مگر محض وعدہ ہی کیا جاتا ہے اور جب ان سب دعوؤں اور وعدوں کو پورا کرنے کا وقت آتا ہے تو عوام سے منہ پھیرلیتے ہیں۔
آئیے آپ کو ایک کہانی سناتے ہیں۔ یہ کہانی پڑوسی ملک میں اسمبلی سیشن کے دوران ایک رکن اکبر الدین اویسی کی جانب سے درباری اور اعلانی سیاست کو بیان کرتے ہوئے سنائی گئی تھی۔
ایک بادشاہ کے دربار میں گانا گانے والا آیا‘ اُس نے گانا شروع کیا‘ بادشاہ نے کہا کتنا اچھا گارہا ہے واہ‘ اُس گانا گانے والے نے اور اچھا گانا گانا شروع کردیا‘ بادشاہ اور خوش ہوا بادشاہ نے کہا کتنی پیاری آواز ہے‘ گانا سن کر بادشاہ نے اعلان کیا اِسے اشرفی دے دو‘ سونا دے دو‘ چاندی دے دو‘ گانا گانے والے نے اور اچھا گانا شروع کردیا بادشاہ نے کہا اِسے زمین جاگیر دو‘ ہیرے جوہرات دو‘ انعام دو
گانا ختم ہوا گانا گانے والا خوشی خوشی گھر گیا اِس نے ساری صورتحال اپنے بیوی بچوں کو بتائی کہ آج بادشاہ مجھ سے بہت خوش ہوئے اور اُنھوں نے مجھے اچھا گانا گانے پر ہیرے ‘جوہرات ‘سونا چاندی ‘اشرفی ‘جاگیریں ‘اور انعام دینے کا اعلان کیا ہے۔
ایک دن گزرا ‘دو دن گزرے ‘تین دن گزرے ہفتے گزر گئے کچھ نہ ملا ‘
گانا گانے والا پھر دربار میں بادشاہ کے پاس حاضر ہوا گانا گانے والے نے بادشاہ سے عرض کیا کہ آپ نے فلاں روز میرے اچھا گانے پر ہیرے جواہرات ‘جاگیریں ‘اشرفیاں ‘سونا ‘چاندی اور انعام دینے کا اعلان کیا تھا مگر ہفتے گزرگئے ابھی تک کچھ نہیں ملا ‘بادشاہ نے جواب دیا کہ بھئی اس میں لینے دینے کی بات کہاں سے آگئی‘تو نے میرے کانوں کو اچھا گانا گا کر خوش کیا اور میں نے اچھے اعلانات سے تیرے کانوں کو خوش کیا۔
پاکستان کے وزیراعظم صاحب 27 مارچ 2017 کو سندھ کے دوسرے بڑے شہر حیدرآباد تشریف لائے ‘مسلم لیگ نواز کے ورکرز کنونشن میں شرکت کی اور شرکاءسے خطاب کیا 133 وزیراعظم نے شہر حیدرآباد کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے غریب عوام کی مشکلات اور حیدرآباد کی خستہ حالی کا تذکرہ کیا۔
مسلم لیگ نواز اور وزیراعظم کے حق میں نعرے بازی جاری تھی عوام کا جوش جذبہ دیکھ کر وزیراعظم اور دیگر مقررین نے سندھ کی حکمران جماعت کو آڑے ہاتھوں لیا کہ عوام سندھ کے حکمرانوں سے سوال کرے کہ انھوں نے شہر کو ترقی کیوں نہیں دی‘ سڑکیں موٹروے‘ یونیورسٹی کیوں نہیں بنوائی ‘وزیراعظم نے حیدرآباد کی عوام کے زخموں پر نمک چھڑکتے ہوئے ایک بار پھر یونیورسٹی کے قیام کو سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے طور پر استعمال کیا۔ حیدرآباد میں انٹرنیشنل ائرپورٹ کی بحالی‘ ہیلتھ کارڈ ‘ ضلعی حکومت کے لیے 50 کروڑ ‘ اورحیدرآباد میں یونیورسٹی کے قیام کے لیے 100 کروڑ روپے دینے کا اعلان کیا اور تقریب ختم ہوئی ‘نعرے لگاتے عوام اپنے اپنے گھر لوٹ گئے۔
مگر سوال یہاں یہ ہے کہ وزیراعظم صاحب سندھ حکومت بدعنوان ہے‘ نااہل ہے ‘ ہزاروں برائیاں ہیں مگر جناب آپ بھی صرف پنجاب کے ہی نہیں بلکہ حیدرآباد سمیت پورے پاکستان کے وزیراعظم ہیں اور آپ تیسری مرتبہ وزیراعظم منتخب ہوئے اور اب اپنی 5 سالہ مدت پوری کررہے ہیں ‘آپ نے پچھلے 4 سالوں میں ان بنیادی سہولتوں پر توجہ کیوں نہیں دی‘ اگرآج حیدرآباد موہن جو دڑو کی شکل اختیار کررہا ہے تو اس میں آپ بھی برابر سے شریک ہیں۔
آپ نے آئندہ الیکشن 2018 کے لیے دعوے اور وعدے بطو ُر انتخابی مہم کے طور پر پیش کیے ہیں‘جب تک کوئی عمل نظر نہیں آتا ابھی محض یہ صرف اعلانات ہی ہیں جب تک کوئی عمل نظر نہیں آتا ۔ یہ دعوے اور وعدے حقیقت بنے گے یا نہیں کوئی نہیں جانتا‘ کیونکہ اب تو یہ بچہ بچہ جانتا ہے کہ حیدرآباد میں یونیورسٹی کے قیام کا اعلان ہو یا دیگر بنیادی سہولیات کی بات ہو ہر دور میں شہر کو ترقی دینے کا عزم ظاہر کیا جاتا رہا ہے مگر ہر بار اِسے سیاست کی نظر کرکے نوجوانوں کو اعلیٰ تعلیم کے حصول کے حق سے محروم رکھا جاتا ہے اور عوام کو بنیادی سہولیا ت فراہم کرنے کے بجائے مشکلات میں اضافہ کردیا جاتا ہے۔ اب یہ کھوکھلے دعوؤں اور وعدوں سے عوام کے جذبات سے کھیلنے کا سلسلہ بند ہونا چاہیے۔