شاہراہ فیصل پر احتجاج نہیں ہوسکتا، کیونکہ اس سے عوام کو تکلیف ہوتی ہے۔
ہائے اللہ ! کتنا خیال ہے عوام کی تکلیف کا، تو پھر شاہراہ فیصل پر سانحہ کارساز پر رقص ہوسکتا ہے؟ ۔
یہ وہی سانحہ کارساز ہے جس میں محترمہ جمہوریت اپنے لاؤلشکر کے ساتھ آئی تھیں تو عوام کو تکلیف نہیں ہوئی تھی۔
عوام کوتکلیف اس وقت بھی نہیں ہوتی جب کے الیکٹرک اپنی من مانیاں کرکے عوام کو لوٹتی ہے اور لوڈشیڈنگ کا عذاب عوام پر مسلط کرتی ہے۔
کوئی ان سے نہیں پوچھ سکتا کہ بھائی یہ کیسی بدمعاشی ہے کہ چوری تم کرو اور بل میں بھروں۔
ابھی تو گرمی شروع ہوئی ہے ،آگے آگے دیکھو ہوتا کیا ہے۔
ہونا کیا ہے سیاست میں بھی گرمی آئے گی۔
گرمی آنہیں رہی، آچکی ہے دیکھا نہیں دھرنا اسپیشلسٹ جماعت اسلامی نے بہت عرصہ بعد دھرنا کا اعلان کیا تو بڑے بڑوں کے اوسان خطا ہوگئے۔
دھرنا سے پہلے ہی پولیس نے دھرنا دے دیا اور سڑکیں بلاک کردیں
کیاان کے دھرنے سے عوام کو تکلیف نہیں ہوئی۔
پولیس کے تو سڑک پر کھڑے ہونے سے ہی عوام کو تکلیف ہوتی ہے ،جہاں یہ کھڑے ہوجائیں عوام وہاں سے گزرتی ہی نہیں۔
یہ کام پی ٹی آئی اور طاہر القادری کرکے دیکھ چکے ہیں اور عوام سمجھتی ہے کہ دھرنا سے کچھ نہیں ہوگا۔
پی ٹی آئی اور طاہر القادری کی دھرنے کی پٹری پر نئی نئی گاڑی چلی تھی ورنہ تو یہ کام جماعت ہی ہر دور میں کرتی آئی ہے۔
جماعت والے ہر دور میں کھیر پکاتے تھے لیکن کھا کوئی اور جاتا تھا، اسی لیے انھوں نے دھرنا اور احتجاج چھوڑ دیا تھا ۔
لیکن اگر یہ دوبارہ عوام کے مسائل پر باہر آئے ہیں تو مجھے یقین ہے کہ یہ ضرور ٹیڑھی کھیر ثابت ہوں گے۔
لیکن ایک مسئلہ ہے۔
وہ کیا؟
عوام کے مسائل پر کوئی باہر نہیں نکلتا۔
ابھی جماعت والوں نے آغاز کردیا ہے اور اب دیکھنا مزید پارٹیاں بھی نکلیں گی۔
میں نے کہا ناں عوام کے مسائل پر کوئی بھی باہر نہیں نکلتا۔
مطلب؟
مطلب یہ کہ عوام کے مسائل پر عوام بھی باہر نہیں نکلتے۔
تو پھر یہ سیاسی پارٹیوں سے کیوں شکایت کرتے ہیں کہ کوئی ان کی آواز نہیں بنتا۔
بولتا ہر کوئی ہے لیکن جب بات ڈنڈوں اور آنسو گیس تک پہنچتی ہے تو امام رہ جاتا ہے اور پیچھے سے جماعت غائب ہوجاتی ہے۔
نہیں اس بار جماعت غائب نہیں ہوگی کیونکہ امام جماعت اسلامی کا ہے اور جماعت والے جب کسی کی نماز پڑھتے ہیں تو وہ جنازہ ہی ہوتی ہے۔
حکومت کا جنازہ تو بہت عرصہ ہوا نکل چکا ہے لیکن کوئی تدفین کے لیے تیار نہیں ۔
کیسے کریں تدقین ،جیب میں پھوٹی کوڑی نہیں،مہنگائی بڑھتی جارہی ہے اور تنخواہ وہی کی وہی جو کبھی وقت پر ملتی نہیں ۔
وقت پر اگر کچھ ملتا ہے تو وہ بجلی کا بل ہے جو ہر مہینہ بھتے کی پرچی کی صورت آجاتا ہے کہ چاہے بجلی خرچ کرو یا نہ کرولیکن بل ادا کرو۔
ملک بھرمیں بجلی کے سب سے زیادہ نرخ کراچی میں ہیں اور کے الیکٹرک اپنی صلاحیت سے بھی نصف بجلی پیدا کرتی ہے۔
وفاق سے سستی بجلی خرید کر ہمیں مہنگی فروخت کرتے ہیں پھر کیا ضرورت پڑی ہے اپنی مہنگی بجلی پیدا کریں۔
دیکھ لینا جب شدید گرمی پڑے گی تو یہ پھر پچھلے سال کی طرح وفاق اور سندھ حکومت آپس میں ڈنڈاڈولی کھیل رہے ہوں گے اور عوام گرمی سے مررہے ہوں گے۔
دیکھتے ہیں اس بار گرمی میں کس کس کا جنازہ نکلتا ہے۔
میر شاہد حسین نے اپنے قلمی سفر کا آغاز بچوں کے ایک معروف رسالے سے 1995ءمیں کیا بعد ازاں آپ اسی رسالے کی ادارت سے منسلک ہوئے اور پھر اس کے مدیر بھی رہے، آپ کو بچوں کے ادب میں کئی ایوارڈزسے بھی نوازا گیا جن میں نیشنل بک فا ؤنڈیشن بھی شامل ہے
شاید آپ یہ بھی پسند کریں
نوٹ: اے آروائی نیوزکی انتظامیہ اور ادارتی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا نقطہ نظر پاکستان اور دنیا بھر میں پھیلے کروڑوں ناظرین تک پہنچے تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 700 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، سوشل میڈیا آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعار ف کے ساتھ ہمیں ای میل کریں ای میل ایڈریس: [email protected] آپ اپنے بلاگ کے ساتھ تصاویر اور ویڈیو لنک بھی بھیج سکتے ہیں۔