میرے ذہن کے دریچوں پر بہت دنوں سے ایک موضوع دستک دے رہا تھا اور میں چاہ رہی تھی کہ اسے صفحات پر منتقل کر دیا جائے ۔ایک معمولی صحافی ہونے کی وجہ سے میرا دن رات سینکڑوں افراد سے واسطہ پڑتا ہے یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ میں خود کو کوئی توپ چیز نہیں سمجھتی بلکہ محض اپنے شوق اور لگن کے باعث صفحات پر چند لائنیں گھیسٹ لیتی ہوں ۔
سو آج کا کالم بھی چند ایک واقعات پر ہی مبنی ہے ، گزشتہ رمضان کی بات ہے کہ ہم سب افراد خانہ ایک پبلک پلیس پر افطاری کے لئے گئے ، یہ دعوت ایک نامور شخصیت کی جانب سے دی گئی تھی جسے ہم سب نے بار بار کے اصرار کی وجہ سے قبول کیا تھا ۔خیر مختلف سماجی اور سیاسی موضوعات پر گفتگو ہوتی رہی۔
لیکن مجھے یہ علم نہیں تھا کہ کھانے کے وقت ان کی پی ایچ ڈی کا لبادہ اتر جائے گا اور وہ اس طرح کا بی ہیو کریں گے کہ جیسے کھانا پہلی دفعہ دیکھا ہے اور آخری دفعہ کھایا ہے ۔ مجھے یہ بھی پتہ نہیں تھا کہ وہ پلیٹ کو کناروں تک اتنا بھر لیں گے کہ اسے ختم کرنا خود ان کے لئے ہی سہل نہیں رہے گا۔ نتیجہ کیا ہونا تھا کھانے کے اختتام پر ان کی پلیٹ میں بچا کچا کھانا سب کا منہ چڑا رہا تھا۔
اسی طرح ایک صاحب جنہیں ہماری گڈ بکس میں ہونے کا شرف حاصل تھا ، تھا اسلئے کہ ایک ایسی حرکت انھوں نے کی کہ میرے اور ان کے اچھے خاصے پیشہ وارانہ تعلقات پر اس کا اثر پڑا ۔ہوا یوں تھا کہ آفس میں ایک بڑے صوفے پر تمام رپورٹرز بیٹھے تھے کہ موصوف گرمی کی شدت سے گھبرا کر پسینے میں شرابورآئے اورآتے ہی ایک ٹشو سے ہاتھ اور پسینہ صاف کرتے ہوئے گویا ہوئے ’’اف بہت گرمی ہے یار کوئی ڈسٹ بن ہی نہیں مل رہی یہاں ‘َ‘‘ یہی کہتے ہوئے انھوں نے صوفوں کے بیچوں بیچ ٹشو کے ٹکڑے پھنسا دئیے یعنی کہ کمال ہی ہو گیا کہ آپ کی ایم اے ، بی اے ، پی ایچ ڈی اور ایل ایل بی کی ڈگریاں بھی کسی کام کی نہیں کہ وہ آپ کو کسی قسم کی تہذیب نہیں سکھا سکیں۔
کیا فائدہ خالی زبانی جمع خرچ کا کہ آپ میں اگر انسانیت ہی نہ ہو ، آپ تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ تہذیب یافتہ نہ ہوں۔
قارئین گبھرائیے مت ان واقعات میں ایک اچھا واقعہ بھی ہے ہمارے محلے میں ایک آنٹی ہیں جن کا نام نرگس ہے شاید وہ پرائمری پاس بھی نہیں ہیں لیکن تہذیب کی دولت سے ضرور مالا مال ہیں ، قابل غور یہ ہے کہ ایک تو ہمارا محلہ ویسے بھی بہت صاف ہے کیونکہ میونسپل کے خاکروب روز آتے ہیں۔ دوسرا آنٹی نرگس محلے کے بچوں کے ساتھ مل کر بھی کوڑا کرکٹ اپنی نگرانی میں کوڑے دانوں تک پہنچاتی ہیں ۔جب کوئی ان سے یہ کہے کہ یہ آپ کی ذمہ داری نہیں تو یہ ضرور کہتی ہیں کہ
میں اس ملک کی ایک ذمہ دار شہری ہوں ، پاکستان میرے سامنے بنا ہے اور اپنے گلستان کو میں گندا نہیں کر سکتی ۔ میں جب بھی ان کی باتیں سنتی ہوں تو یہ سوچنے پر ضرور مجبور ہو جاتی ہوں کہ کچھ ان پڑھ تہذیب یافتہ خواندہ جاہلوں سے بہت بہتر ہوتے ہیں۔ کیا آپ مجھ سے اتفاق کریں گے ؟۔