مرسلین میرے بچپن کا دوست ہے اور ملائیشیا میں سترہ سال سے مقیم ہے ، اس مرتبہ دو مہینے کے لیے اس کا پاکستان آنا ہوا تو ہمیشہ کی طرح بہت پرجوش تھا ، میرے گھر ہونے والی دعوت کے مزے اڑانے کے بعد کہنے لگا ’’یار رفاقت تم میرے ساتھ بازار چلو ، اصل میں میں چاہتا ہوں کہ اپنے کچھ دوستوں کو پاکستان کی مشہور مصنوعات تحفتاً دوں چاہے وہ معمولی کی چیننز ہی کیوں نہ ہوں ؟میں چاہتا ہوں کہ ملائیشیا کے دوستوں کوبھی معلوم ہو کہ ہمارا ملک کتنا خوب صورت ہےاور یہاں کتنے خزانے چھپے ہوئےہیں ‘‘۔
دراصل میری طرح مرسلین بھی بہت محب وطن ہے ، مجھے یاد ہے کہ جب اسے پہلی مرتبہ دیارِغیر جانا پڑا اور گھریلوحالات کی وجہ سے وہ وہاں رکا، سیٹل ہونے میں مشکلات تو برداشت کرتا رہا لیکن ہر لمحہ پاکستان کی یاد اورمحبت اس کے دل میں جاگزیں رہی۔
خیر قصہ مختصر ہم دونوں ایک شام قریبی بازار چلے گئے جہاں ہم نے یہی چاہا کہ کچھ کی چینز ، ریفریجریٹرز پر لگانے والے مقناطیسی سٹکرزخریدے جائیں جن پر پاکستان کی مشہور تاریخی عمارات جیسے مینار پاکستان ، بادشاہی مسجد ، پاکستانی جھنڈے اور دیگردیدہ زیب تصاویر بنی ہوئی ہوں ۔
کالج روڈ راولپنڈی میں بہت مشہور ہے اور یہاں کے اردو بازار میں اس طرح کی چیننز ملنا ہمارے خیال میں عام سی بات ہے ، ہم جیسے ہی دکان میں داخل ہوئے اور اپنا مدعا بیان کیا تو دکاندار ہماری ہی شکل دیکھنے لگا اور کہنے لگا کہ ’’ باؤ جی آپ جو چیزیں ڈیمانڈ کر رہے ہیں ناں وہ نہیں مل سکتیں ۔ آپ یہ سٹکرز لے جائیں ان پر بھی خوب صورت تصاویربنی ہوئی ہیں‘‘۔
یہ کہتے ہی انھوں نے کی چینز اور سٹکرز کاایک ڈھیر کاوئنٹر پر سجا دیا ۔ قابلِ غور یہ ہے کہ ان سب پر مجسمہ آزادی ، ایفل ٹاور ، دریائے ٹیمز اور اسی طرح کی تصاویر بنی ہوئی تھیں ۔ مرسلین نے اسے کہا کہ ’’ بھائی ہمیں پاکستان کی چیزیں دکھاؤ کیونکہ ہمیں ان غیر ملکی مصنوعات کی کیا ضرورہم تو آئے ہی باہر سے ہیں‘‘۔
مرسلین کا یہ کہنا تھا کہ دکان دار کی پیشانی پر غصے کے آثار نمودار ہوئے اور وہ کہنے لگا ’’باؤجی! آپ کیا باوا آدم کے دور کی پیداوار ہیں ؟ کس زمانے کی بات کررہے ہیں، اب وہ زمانہ گیا جب پاکستانی اپنے پاکستانی ہونے پر فخر کرتے تھے اور غیر ملکوں میں ہمارا نام روشن کرتے تھے ، اب سب لوگ ایفل ٹاور اوردیوارِچین کی ہی فرمائش کرتے ہیں۔
’’سچ پوچھئے بھائی صاحب آپ کچھ بھی نہ لے کے جائیں، ورنہ خواہ مخواہ کی شرمندگی ہوگی۔ اورآپ تو کوئی انوکھے ہی باہر رہنے والے ہیں، کیونکہ زیادہ تر تو وہی ہیں جو ملک کا نام ہی ڈبوتے ہیں ، حج کے موقع پر بھی جیب تراشی سے باز نہیں آتے ، افیم اور ہیروئین لے جاتے ہیں ، باہر کی لڑکیوں سے گرین کارڈ کے لئے شادیاں کر کے انھیں دھوکا دے کر آجاتے ہیں ، اب ایسے میں کیا ترجمانی کرنی ہے آپ نے ‘‘۔
ہم اردو بازار ، نرنکاری بازار اور جڑواں شہروں کے کئی بازاروں میں گئے لیکن مایوسی ہی ہوئی‘ آخری دکان سے باہر آتے ہوئے مرسلین کی آنکھوں میں آنسو آگئے کہ ’’یار دیکھو کوئی کیسے باہر کے ملک میں اپنے ملک سے وہاں کے لوگوں کو متعارف کروا سکتا ہے؟‘‘۔
میں نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا کہ ’’چلو یار یہاں کوئی بھی ہمارے مطلب کی چیز نہیں بس تمھارے لئے یہی ہے کہ اپنے وہاں کے دوستوں کے لئے ملتانی حلوہ ہی لے جانا کہ چلو تم کچھ تو لائے ہو ناں ، بلکہ آؤ یہیں سے ہی لے لیتے ہیں۔ ‘‘ یہ کہتے ہی میں نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا تو جیب کٹ چکی تھی ، میرے ذہن میں اس دکان دار کی آواز ہی گونجنے لگی۔
’’اب وہ زمانہ گیا جب لوگ اپنے پاکستانی ہونے پرفخر کرتے تھے ، ہم تو ایسے ہیں جو حج کے موقع پر بھی جیب تراشی سے باز نہیں آتے‘‘۔