’’قوم کو اندھیرے میں رکھا جا رہا ہے۔جس کی ہرگز اجازت نہیں دی جاسکتی۔‘‘
’’یہ کس کا سیاسی بیان ہے؟‘‘
’’ یہ سیاسی بیان نہیں ہے۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ نے اندھیر مچا رکھی ہے۔‘‘
’’تو یوں کہو ناں کہ اندھیر نگری چوپٹ راج ہے۔‘‘
’’ اب اس قوم کو جاگنا ہی ہوگا۔‘‘
’’ وہی تو کررہے ہیں یہ کے الیکٹرک والے۔‘‘
’’ جس قوم کو کوئی نہیں جگا سکا اب اسے یہ کے الیکٹرک جگائے گی۔‘‘
’’ اب تو جاگنا ہی پڑے گا جب گرمی میں رات بھر بجلی نہیں آئے گی تو۔‘‘
’’ جب سے رمضان کا بابرکت مہینہ شروع ہوا ہے انہوں نے تو اندھیر ہی مچادی ہے۔نہ سحری دیکھتے ہیں نہ افطار اور نہ ہی تراویح۔ ‘‘
’’ حکومت اس بات کا نوٹس کیوں نہیں لیتی؟‘‘
’’ حکومت کیا نوٹس لے گی اس کے تو اپنی جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں ۔‘‘
’’تو پھر یہ ساری سیاسی جماعتیں کدھر ہے اس مسئلہ پر عوام کی نمائندگی کیوں نہیں کرتیں؟‘‘
’’ عوام کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ ہر مسئلہ کو سیاسی سمجھ لیتے ہیں جبکہ یہ عوامی مسئلہ تھا۔ اس پر تمام سیاسی جماعتوں کو مل کر آواز بلند کرنی چاہیے تھی۔‘‘
’’لیکن اس کا ٹھیکہ صرف جماعت اسلامی والوں کے پاس ہے۔‘‘
’’ یہ تمام سیاسی جماعتیں اپنے مفادات کے لیے تو جمع ہوجاتی ہیں لیکن عوامی مسائل پر کیوں جمع نہیں ہوتیں۔‘‘
’’سیاسی جماعتیں تو تب جمع ہوں جب یہ عوام جمع ہو۔ عوام اپنے حق کے لیے بھی گھر سے باہر نہیں نکلتی۔‘‘
’’شاہراہ فیصل پر پرامن دھرنے میں بھی چند سو لوگ جمع ہوئے۔‘‘
’’ ہر کوئی چاہتا ہے کہ وہ گھر بیٹھا رہے اور مسئلہ حل ہوجائے۔ کسی کو کچھ کرنا نہ پڑے۔‘‘
’’اگر دعاؤں سے یہ مسئلہ حل ہوسکتا ہے تو اس رمضان پر دعا سے کام چلا لیتے ہیں ۔ ‘‘
’’ یہ مسئلہ دعا سے نہیں دوا سے حل ہوگا۔‘‘
’’ کیا ہے اس مسئلہ کی دوا؟‘‘
’’وہی جس کا یہ شہر اور عوام عادی ہیں۔ جلاؤ گھیراؤ شروع ہو گیا ہے۔‘‘
’’ اس طرح تو بہت نقصان ہوگا۔‘‘
’’ کیا کریں جب تک کسی کی املاک کو نقصان نہ پہنچے ، کسی کا سر نہ پھٹے ، ان ٹھنڈے کمروں میں بیٹھے لوگوں کو کوئی بات سمجھ ہی نہیں آتی۔‘‘
’’اگر یہ لوگ باہر نہیں نکلے تو ویسے ہی مارے جائیں گے ، یاد نہیں پچھلے سال کتنے لوگ مارے گئے تھے ،اسی رمضان کے مہینہ میں۔‘‘
’’ ہاں اگر خدانخواستہ گرمی میں اضافہ ہوا تو یہی کچھ ہوگا۔ اس لوڈشیڈنگ میں گرمی کو جھیلنا بہت مشکل ہے۔‘‘
’’ تو پھر کیا خیال ہے احتجاج کے بارے میں۔‘‘
’’ وہ میں ذرا جرنیٹر ٹھیک کروالوں‘ صبح سے خراب ہے۔اس گرمی میں اب کون باہر نکلے؟‘‘
’’پھر ایک ہی حل ہے سوشل میڈیا پر احتجاجی اسٹیٹس اپ ڈیٹ کردیتا ہوں۔‘‘
’’ہاں یہ ٹھیک ہے… لیکن بجلی آجائے تب!!‘‘