The news is by your side.

یہ عوام بھی آپ کے ہیں

پطرس بخاری ایک مرتبہ اپنے دفتر میں کام نمٹا رہے تھے کہ ایک صاحب ان سے ملنے کے لئے آئے ۔ جب بخاری صاحب نے انہیں تشریف رکھنے کے لئے کہا تو وہ شخص بولا کہ جناب میں قومی اسمبلی کا ممبر ہوں تو پطرس بخاری صاحب نے بغیر نوٹس لئے ہوئے کہا کہ اچھا جی اگر آپ قومی اسمبلی کے ممبر ہیں تو دو کرسیوں پر تشریف رکھ لیں۔

آج کل کے دور میں ایسے ہی افراد کی ضرورت ہے جو حقیقی معنوں میں سب کو ایک نظر سے ہی دیکھیں ۔

 چلیں اب بات آگئی ہے تو سنتے چلیں کہ آج سے دس سال پہلے میرا دفتر اسلام آباد (زیرو پوائنٹ ) پر تھا اور میں ایک موقر انگریزی روزنامے میں بطور رپورٹر فرائض سرانجام دے رہی تھی ایک دن جب میں گھر روانگی کے لئے دفتر سے چلی تو معلوم ہوا کہ روٹ لگا ہوا ہے کیونکہ جنرل صاحب نے گذرنا ہے ، خیر تفصیل تو پھر آپ کو معلوم ہی ہے ناں سخت گرمی ، تاخیر سے گھر پہنچنا اور خفت الگ۔

میری ماموں کی بیٹی کو الرجی کا مسئلہ ہے اور جب پولن کا موسم ہو تو یہ مرض اور بھی بڑھ جاتا ہے اور سانس لینے میں دشواری کی وجہ سے انھیں ہسپتال منتقل  کرنا پڑتا ہے لیکن یہاں بھی ایمبولینس کو راستہ نہ مل سکا کیونکہ امریکا اور بھارت کے خارجہ سیکرٹری ایک کانفرنس کے سلسلے میں یہاں اسلام آباد آئے ہوئے تھے ۔ ان کے لئے تمام سیکورٹی انتظامات مکمل تھے لیکن خوار جڑواں شہر کے باسی ہورہے تھے ۔

اب آجاتے ہیں دھرنوں پر قمر انکل کی بہن کی وفات ہو چکی تھی انھیں جنازے میں شرکت کے لئے گاؤں جانا تھا اور اپنے ایک بھائی کو بھی لے کے جانا تھا لیکن دھرنوں ، توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراو کی وجہ سے پورا اسلام آباد بند پڑا تھا۔ نتیجہ یہی ہوا کہ وہ اس دن اپنی پیاری بہن کا چہرہ نہیں دیکھ سکے ۔

میں یہاں صرف پروٹوکول کی بات نہیں کر رہی بلکہ ہمارے ملک میں روز طرح طرح کے واقعات ہوتے ہیں ، سٹرکوں پر ٹائر جلائے جاتے ہیں ، لوگوں کی قیمتی املاک نذر آتش کی جاتی ہیں ۔ جلسے جلوس اور ہنگاموں نے ہم سب کو نفسیاتی مریض بنا دیا ہے ۔ سڑکوں پر رش اور ایمبولینس میں لاشیں اب کوئی نیا منظر نہیں رہا ۔

سوال صرف ہر فرد کا یہی ہے کہ مانا کہ یہ ملک بھی ان سیاست دانوں کا ہی ہے ، اس کے وسائل بھی ان ہی اہم پروٹوکول والی شخصیات کے ہیں ، دولت بھی ان  کی ہی ہے تو یہ عوام آپ کے کیوں نہیں ؟ کیونکہ عوام کے ٹیکسوں کے پیسوں سے ہی آپ کے محلات کھڑے ہیں ، ان کی وجہ سے ہی آپ کی بادشاہت قائم ہے، آپ کا عروج اور شان و شوکت تو اس عوام کی وجہ سے ہی ہے ،

 مان لیا کہ آپ کے تمام اثاثے تو بیرون ملک ہوتے ہیں لیکن اس عوام کا کیا قصور جو ووٹ بھی آپ کو دیں ، محنت بھی اس ملک کے لئے کریں اور جواب میں ان کے ساتھ جانوروں سے بھی بدتر سلوک ہو

کبھی انھیں ہسپتالوں میں جگہ نہ ملے ، پینے کا صاف پانی نہ ملے ، گلیوں اور بازاروں میں کچرا جمع ہو ، صفائی کی صورتحال ابتر ہو ، جان و مال کا کوئی تحفظ نہ ہو ۔کیا یہ عوام آپ کے نہیں ہیں ، آپ عوام کو تو بہت احتساب کا درس دیتے نظر آتے ہیں کیا خود حقیقی معنوں میں احتساب سے گذرے ہیں ؟ کیا کبھی ان مظلوم شہریوں کو بھی اپنا سمجھا ہے ؟

جس دن ان اہم شخصیات اور لوگوں کی املاک جلانے والوں نے یہ سمجھ لیا کہ یہ عوام بھی ہمارے ہیں بس اسی دن سے تبدیلی کا آغاز ہو جائے گا۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں