’’آج مجھے اپنا بھائی صولت مرزا بہت یاد آرہا ہے۔‘‘
’’خیریت تو ہے ، طبیعت تو ٹھیک ہے ناں… آج سحری تو کی تھی ناں۔‘‘
’’ہاں ہاں سب ٹھیک ہے۔‘‘
’’تو پھر ایک قاتل کو اپنا بھائی کہنا اور پھر اس کو یاد کرنا کیا مطلب ہے اس کا؟‘‘
’’سیدھی سی بات ہے اس نے قتل کیا ،اس کی سزا بھگت لی ۔اب اس کا اور اس کے ر ب کا معاملہ ہے۔ بحیثیت مسلمان وہ ہمارا بھائی ہی ہے چاہے وہ قاتل ہی کیوں نہ ہو۔‘‘
’’مجھے تو خیریت نہیں لگتی، عجیب بہکی بہکی باتیں کررہے ہوآج۔‘‘
’’ہاں تمہیں تو عجیب ہی لگیں گی یہ سب باتیں۔ لیکن مجھے کہنے دو کہ وہ اصل قاتل نہیں تھا۔‘‘
’’کیا مطلب!!… تو پھر کون تھا؟‘‘
’’وہ جس نے اس پڑھے لکھے نوجوان کے ہاتھ میں قلم کی جگہ ہتھیار دیا۔ جس نے اس کے حقوق پر ڈاکا ڈالا ۔جس کے کہنے پر یہ سب کچھ کیا ۔وہ آج سب کہاں ہیں؟‘‘
’’اب مجھے تمہاری بات کچھ کچھ سمجھ میں آئی۔ تم یہ کہنا چاہتے ہو کہ اسے توبس ٹشو پیپر کی طرح استعمال کیا گیا اور پھر پھینک دیا گیا ۔‘‘
’’اس شہر میں صرف شاہد حامد کا ہی قتل تو نہیں ہوا ناں۔ ہزاروں بے گناہ بھائی، باپ اور بیٹے اس خونی کھیل کا حصہ بن گئے۔‘‘
’’ٹھیک کہہ رہے ہو، مجھے نہیں یاد پڑتا کہ صولت مرزا کے بعد کسی پہاڑی،کسی بھولے یا کسی چھوٹے کو سینکڑوں قتل کے اعتراف کے بعد سزا ہوئی ہو۔‘‘
’’صرف نائن زیرو کے ’’کے ٹو ‘‘کو سر کرلینے سے تو مسائل حل نہیں ہوں گے۔‘‘
’’لیکن ان سب کو سزا دی تو سوچ لو …تمہیں ہی یہ سب پھر یاد آنے لگیں گے۔‘‘
’’میں نے کب یہ کہا کہ صولت مرزا بے گناہ تھا اور اس کو سزا نہیں ہونی چاہیے؟سزا کا قانون سب کے لیے ایک ہونا چاہیے۔ ایسا نہ ہو کہ ہمیشہ کی طرح قاتلوں کو چھتری فراہم کردی جائے کہ جو اس چھتری کے نیچے رہے گا وہ محفوظ ہے۔‘‘
’’عدالت میں سزا دلوانے کے لیے ثابت کرنا پڑتا ہے اور پھر رہی بات بڑے لوگوں کی تو وہ تو کبھی بھی اس پھندے تک نہیں پہنچے سوائے بھٹو کے۔‘‘
’’بھٹو بھی اگر نواز شریف کی طرح مان جاتے تو دوبارہ وزیر اعظم بن سکتے تھے۔‘‘
’’ان کا ضرور یہ خیال رہا ہوگا کہ شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے۔‘‘
’’خیر ایسی بھی کوئی بات نہیں ،شیر تو شیر ہی ہوتا ہے چاہے گیدڑ جیسا ہی کیوں نہ ہو۔‘‘
’’بتاؤ یہ ہزاروں لاکھوں کراچی والوں کا قتل کس کے سر جائے گا۔ ‘‘
’’ان ہی کے سر جائے گا جنہوں نے ان کو منتخب کیا تھا۔‘‘
’’تمہیں تو پتا ہے ہمارے ملک میں جس کے پاس لاٹھی ہے بھینس بھی اس کی ہے اور لاٹھی والے جب تک بھینس دودھ دیتی ہے اس کا دودھ استعمال میں لاتے ہیں اور جب نہیں دیتی تو ذبح کردیتے ہیں۔لیکن لاٹھی والوں کو بھی پتا ہونا چاہیے کہ اﷲکی لاٹھی بے آواز ہے۔‘‘
’’گویا عوام بے چاری ہے جس کے پاس کوئی چارہ نہیں۔‘‘
’’ اب یہ تو اگلے الیکشن میں ہی پتا چلے گا کہ لاٹھی کس کی ہے؟ اور بھینس کس کی ہے؟‘‘
’’ عوام کی اکثریت کسی کو قتل کرنے پر آمادہ ہوجائے تو اسے قتل کرنے کی اجازت تو نہیں دی جاسکتی۔کراچی کو تباہ کر دیا گیا اورتباہ کرنے والوں کو کھلی چھٹی تھی کہ وہ جو چاہیں کریں۔جس کو چاہیں ٹارگٹ کریں اور جس سے چاہیں بھتہ وصول کریں۔‘‘
’’تم یہ کیسے کہہ سکتے ہو کہ انھیں کسی نے کھلی چھٹی دے رکھی تھی؟‘‘
’’سیدھی سی بات ہے اگر میں اپنے گھر کے باہر ایک ٹرک بجری بھی گراؤں تو پولیس والے فوراً خبر لینے آجاتے ہیں۔شہر میں کوئی ٹرک ان سے چھپ کر داخل نہیں ہوتا جب تک کہ ان سے عید نہ ملے۔تو پھر کیسے ممکن ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں اسلحہ شہر میں سپلائی ہوتا رہا ہو اور کسی کو کانوں کان خبر تک نہیں ہوئی۔‘‘
’’خبر تو سب کو تھی لیکن اجازت کسی کو نہ تھی۔یہی وجہ تھی کہ کراچی میں ہفتہ میں دو دن ہڑتالوں کا دن منایا جاتا تھا۔‘‘
’’آج کل تو کراچی والے بس تین دن پھلوں کی ہڑتال کرکے ہی خوش ہیں ۔‘‘
’’ چھوڑو سب بھول جاؤ معافی مانگنے کا مہینہ ہے ۔‘‘
’’ہاں اگر اب بھی نہ معافی مانگی تو کب معافی مانگیں گے ۔ پتا نہیں پھر اﷲ مہلت بھی دیتا ہے کہ نہیں!!‘‘
٭…٭
میر شاہد حسین نے اپنے قلمی سفر کا آغاز بچوں کے ایک معروف رسالے سے 1995ءمیں کیا بعد ازاں آپ اسی رسالے کی ادارت سے منسلک ہوئے اور پھر اس کے مدیر بھی رہے، آپ کو بچوں کے ادب میں کئی ایوارڈزسے بھی نوازا گیا جن میں نیشنل بک فا ؤنڈیشن بھی شامل ہے
شاید آپ یہ بھی پسند کریں
نوٹ: اے آروائی نیوزکی انتظامیہ اور ادارتی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا نقطہ نظر پاکستان اور دنیا بھر میں پھیلے کروڑوں ناظرین تک پہنچے تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 700 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، سوشل میڈیا آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعار ف کے ساتھ ہمیں ای میل کریں ای میل ایڈریس: [email protected] آپ اپنے بلاگ کے ساتھ تصاویر اور ویڈیو لنک بھی بھیج سکتے ہیں۔