The news is by your side.

عینک سے نہ گھبرائیں‘ یہ انسان ہونے کی نشانی ہے

آج ہم آپ کو منی  نامی ایک معصوم بچی پر گزرنے والی داستان سنارہے ہیں۔ منی کا تعارف کروانے سے پہلے یہاں ہمیں منی کی مادر گرامی سے آپ کی واقفیت کرانا ہو گی ، منی یعنی مناہل کی والدہ غلطی سے ہماری چچا زاد بہن ہیں ۔کچھ دن سے وہ بہت پریشانی کے عالم میں ہمارے گھر کے چکر کاٹ رہی ہیں ۔ان کے اس طرح ہمارے گھر کے طواف کرنے کی چند وجوہات ہیں جس میں سرفہرست یہ ہے کہ منی کی نظر کو بقول ان کے کسی کی نظرِ بد لگ گئی ہے اور وائٹ بورڈ پر ان کو کچھ بھی صاف دکھائی نہیں دیتا ۔

یہ الگ بات کہ منی عینک لگانے سے پہلے ہی بیزار ہو رہی ہے ، اس کی امی کی طرح ہم بھی اسےسمجھا سمجھا کے تھک گئے ہیں کہ دیکھو اگر عینک اہم نہ ہوتی تو عینک والا جن ڈرامہ کیوں بنتا خیر بات ہو رہی ہے وجوہات کی ۔

دوسری وجہ یہ ہے کہ وہ یہ سمجھتی ہیں کہ میڈیا کے لوگ ایسے ہیں کہ کہیں بل جمع کروانے جائیں یا کسی کو تڑی لگانے بس صرف ان کی سنی جاتی ہے ۔

تیسری وجہ یہ ہے کہ اپنے پورے گھر میں بس ایک ’عینکو‘ ہم ہی ہیں اس لئے وہ کہہ رہی ہیں کہ ہماری ماہرانہ رائے منی کے مستقبل کے لئے کافی مفید ثابت ہو گی ۔ خیر دفتر سے آدھی چھٹی لے کر ممی اینڈ گرل کی درخواست پر ہم ان کے ہمراہ ہو لئے ۔۔اب ہمیں کیا پتا تھا کہ ہمارا تو بس نام ہی بدنام ہے کیونکہ وہ تو ہم سے بھی بڑی پروفیسر ہیں ۔

ڈاکٹر کے کلینک پر جانے کی بجائے ہمیں آپٹیشن کی دکان پر لےآئیں میں نے انھیں کہا بھی کہ ’’ جناب یہ کیا نظر چیک کرے گا َ‘‘ تو وہ کہنے لگیں ’’ دیکھو یار کم خرچ بالا نشین ، تمھیں اپنے بھائی صاحب کا تو پتا ہی ہے پراپرٹی ڈیلر ہیں گن گن کر اس طرح پیسا دیتے ہیں جس طرح لوگ چائے میں رہنے والا آخری بسکٹ بچا بچا کے کھاتے ہیں اچھا ہے ناں یہ یہاں پر نظر چیک کر لے گا اور ساتھ میں عینک بھی بنا دے گا ۔

خیر منی صاحبہ سٹول پر بیٹھیں اور لگیں الف ب پڑھنے یہ الگ بات ہے کہ انھوں نے پی کو تین چار دفعہ پڑھا اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ منی کو اور حروف تہجی نہیں آتے بلکہ بعد میں پتا چلا کہ انھیں ’’پی ‘‘ آئی ہوئی تھی ۔

خیر مشکل سے یہ مرحلہ طے ہوا اور منی کو گھر چھوڑا گیا اگلے دن واپسی پر ہم مناہل کی عینک آپٹیشن کی دکان سے لے کر بھاری رقم دے کر آئے کیونکہ فریم بھی انھوں نے ڈوئچی اینڈ گابانا کا ہی پسند کیا تھا ۔منی صاحبہ سکول کیا گئیں رولا ہو گیا‘ پتا چلا کہ وہیں چکرا کر چاروں شانے چت ہیں ، میں نے تو سمجھا کہ شاید یہ ان کے سکول میں ہونے والے ریاضی کے ٹیسٹ کا نتیجہ ہے لیکن نہیں جناب بعد میں معلوم یہ ہوا کہ عینک کا نمبر ہی غلط ہے ۔۔اگلے دن انھیں پھر تیار کروا کے ہم اپنے آنکھوں کے معالج کے پاس لے آئے جہاں ان کی عینک کا درست نمبر بنا اور مناہل صاحبہ اینڈ مدر کی جان میں جان آئی ۔

اس سارے واقعے سے جہاں میں نے بہت سے سبق سیکھے ہمیں یہ تو معلوم ہے کہ کسی نے ماننے نہیں لیکن کیونکہ ہمیں اپنے معزز قارئین کا خیال ہے اور پھر ہمارا زور بھی آپ پر ہی چلتا ہے تو نہایت سنجیدگی سے ان طریقوں پر عمل کریں ۔

کبھی بھی عینک لگانے سے شرم محسوس نہ کریں کیونکہ یہ آپ کی آنکھوں کا معاملہ ہے بلکہ جب بھی عینک لگائیں اپنی ناک اور کان دونوں کی موجودگی پر اللہ تعالی کا شکر ادا کریں کہ اگر یہ دونوں نہ ہوتے تو عینک کہاں لگائی جاتی ؟

عینک کو اپنی شخصیت کا ایک اہم جزو سمجھیں ، یہ ہمیشہ فیشن میں رہتی ہے خواہ آپ اسے گلے میں لٹکائیں یا ناک کی نوک پر ٹکائیں ، کبھی بھی احساس کمتری محسوس نہ کریں کیونکہ بہت سے افراد نے محض فیشن میں بغیر نمبروں کے عینک لگا رکھی ہے ۔

اپنے گھر کے بزرگوں یا کسی اور کی عینک کبھی استعمال نہ کریں کیونکہ دادا ابا تو شاید برا نہ مانیں لیکن عینک ضرور مائنڈ کر جائے گی اورمختلف شیشوں کے استعمال سے آپ کی اپنی نظر خراب ہو جائے گی ۔عینک خریدتے وقت ہمیشہ اپنے ساتھ کسی انسان کے بچے کو لے کر جائیں ورنہ آپ کا دشمن غلط قسم کا فریم پسند کروا کے آپ کی ساری ہیرو نما پرسینالٹی کو تباہ کر سکتا ہے ۔

عینک کے شیشے ہمیشہ پلاسٹک کے رکھوائیں تاکہ اگر آپ کے دانت کوئی توڑنا چاہے خدا نخواستہ تو آپ کے زمین بوس ہونے کی صورت میں شیشے آپ کی آنکھوں کو کوئی نقصان نہ پہنچا سکیں ۔

عینک کی خریداری میں کبھی کسی کی نقل نہ کریں کیونکہ کوا چلا ہنس کی چال تو اپنی بھی بھول گیا کے مصداق آپ غلط عینک کا انتخاب کر لیں گے اور سب آپ کو جیمز بانڈ کا جانشین ہی سمجھ لیں گے ۔

آنکھوں کا معائنہ ہمیشہ آنکھوں کے ماہر سے کروائیں کسی آپٹیشن یا کاری گر پر اعتبار کرنے کی ہر گز ضرورت نہیں کیونکہ عینک آپ پھر بھی لے سکتے ہیں لیکن یہ خوب صورت آنکھیں بس دو ہی ہیں آپ کے پاس ۔

اگر آپ بزرگ ہیں تو کوشش کریں کہ وہ ڈی والی عینک بنوا لیں جس میں دوراور نزدیک دونوں طرح کے شیشے ہوں تاکہ آپ کو بچوں کو بار بار آوازیں نہ دینی پڑیں اور کیبل کی تمام تر نشریات بھی آپ کی نظروں کے سامنے رہیں ۔

دوائیوں کے ساتھ ساتھ اپنی عینک کا بھی خاص خیال رکھیں اور انھیں بھی بچوں کی پہنچ سے دور رکھیں کیونکہ آج کل کے آفت کے پرکالہ بچوں کو ڈرامے بازیوں اور فلمیں کرنے کا مفت میں شوق ہوتا ہے اس لئے ایسے موسمی اداکاروں سے اپنی عینک بچانا ضروری ہے ۔

ہمیں پتا نہیں آپ کے لئے کچھ بھی لکھتے ہوئے یہ یقین ہوتا ہے کہ یہ آپ کو پسند آئے گا ، پڑھ کر فیصلہ تو آپ لوگوں نے ہی کرنا ہے ذرا ٹھہرئیے ہم بھی اب اپنی عینک اتار لیں کیونکہ بدستور پندرہ منٹ سے ہماری ناک دکھ رہی ہے ۔


اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں

شاید آپ یہ بھی پسند کریں