The news is by your side.

واٹس ایپ پولیسنگ

آج دن کا آغاز بری خبر سے ہوا، خبر یہ تھی ایک دفعہ پھر ڈی ایس پی ٹریفک اور ان کے ڈرائیور کو شہید کردیا گیا، اس شہر میں نہ جانے کئی سالوں بعد کچھ عرصے کیلئے ٹارگٹ کلنگ کے جن بوتل میں بند کیا گیاتھا لیکن یہ جن مستقل طور پر قابو میں نہیں آیا اور ان دنوں پھر پولیس اہلکاروں کو چن چن کر ٹارگٹ کیا جارہا ہے۔

مجھے وہ دن بھی یاد ہیں جب سائٹ کے علاقے میں پورے تھانے کے اہلکاروں کو ایک ایک کرکے شہید کردیاگیا، ایسے ہی پورے کراچی میں عام شہریوں سیاسی کارکنان اور پولیس اہلکار قتل کیے جاتے رہے آخر کار ایک دن شہر میں ایک دفعہ پھر آپریشن کا فیصلہ کرلیاگیا۔

اس آپریشن میں کامیابیاں ملیں اور شہر میں امن وامان قائم کرلیاگیا لیکن ہر آفیسر نے اپنے دور میں امن قائم رکھنے کو ترجیح دی جس کی وجہ سے آج پھر دہشت گرد اس شہر میں اپنی موجودگی کا احساس دلارہے ہیں۔

آپریشن شروع ہوا تو پولیس، رینجرز اور دیگر ادارے دن رات محنت کرتے اور دہشت گردوں کے تعاقب میں نظر آرہے تھے، جیسے جیسے دن گزرے سب کچھ بدلتا گیا اور یہ آپریشن صرف واٹس اپ تک محدود ہوگیا، یہ واٹس ایپ تک کیسے محدود ہوا؟ اس کا احوال کچھ ایسے ہے۔

آئی جی سندھ یا ایڈیشنل آئی جی کراچی کی زیر صدارت امن وامان کا اجلاس اور ایسے اجلاس تقریباً ہردوسرے دن منعقد کیے جاتے ہیں جب کہ اس کی باقاعدہ پریس ریلیز بھی جاری کی جاتیں ہیں، اصل میں اجلاس میں ڈی آئی جیز اورایس اسی پیز سمیت تمام افسران شرکت کرتے ہیں۔

اجلاس میں امن وامان سے متعلق بریفنگ اور ہدایات دی جاتی ہیں میٹنگ ختم ہوتے ہی افسران تھک چکے ہوتے ہیں اور پھر دفتر کون جائے، بس میٹنگ ہوگئی، اچھا ہے اب کل سے دفتر جائیں گے میٹنگ سے واپسی پر واٹس اپ پر ایک افسر نے میسج بنایا اور اپنے اپنے زونز کے گروپ میں ڈال دیا۔ ہوگئی نوکری مکمل ۔

یہ میسج گروپ میں شامل ان تمام ایس ایچ اوز کیلئے ہوتا ہے جن میں سے اکثر کو انگلش ہی نہیں آتی اور انہیں اس میسج کا اردو ترجمہ کروانا پڑتا ہے لیکن ترجمہ کروانے سے پہلے وہ ایس ایچ او ’’اوکے‘‘ کا میسج جواب میں ضرور کردیتا ہے کیونکہ افسر کا میسج اور حکم ہے تو اوکے کرنا ہی ہے۔

ڈنر پر ڈی آئی جیز ایس ایس پیز اور ایس پیز صاحبان کو کرائم اور جرائم پیشہ افراد کے خلاف آپریشن کا خیال آجاتا ہے تو واٹس اپ پر دوبارہ حکم دیا جاتا ہے کہ اسنیپ چیکنگ اور سرچ آپریشن کرو اور اگر کرائم ہوا تو خود کو معطل سمجھو، ایس ایچ او فوری حکم پرفوراً عمل کرتا ہے۔

موبائل افسر کو حکم ملتا ہے چوک پر جاؤ اور اسنیپ چیکنگ شروع کردو اور دوتین تصاویر واٹس اپ کرو، ایس پی صاحب کا حکم ہے، پھرحکم کی تعمیل ہوجاتی ہے ، ایس ایچ او تصاویر واٹس اپ گروپ میں ڈال دیتا ہے سرچ آپریشن میں مزدوروں کو تھانے لاکر تصاویر بھی واٹس اپ کردی جاتی ہیں، ایک اور حکم کی تعمیل ہوگئی۔

اب ان بے چاروں کو شکریہ ادا کرکے چھوڑنے کا وقت ہوتا ہے، کیونکہ افسران کے حکام کیلئے ان بیچاروں کو نہ جانے کتنی بار مشتبہ جان کر ایک رات تھانے میں گزارنا پڑتی ہے، اگلا دن آجاتا ہے ایس ایچ او آٹھ بجے اپنے علاقے میں موجود ہونے کا وائرلیس پر پیغام دیتا ہے۔

ایس پی صاحبان کو واٹس اپ پر بینک، اسکول اور گشت کی رپورٹ دی جاتی ہے اس دوران افسران بالا پھر میٹنگ میں مصروف ہوتے ہیں اور اس میٹنگ کےبعد کبھی کبھی آفس آجاتے ہیں کیونکہ ان کو ڈاک سائن کرنی ہوتی ہے اور اپنے ان خاص افسران سے ملاقات کرنی ہوتی ہے جو اصل میں ان کی جگہ فرائض انجام دیتے ہیں، ان سے ملاقات کی وجہ سجھنے والے بخوبی سمجھتے ہیں۔

ایس ایس پی صاحب یا ایس پی صاحب یا ڈی آئی جی صاحب آخر کار کرائم نہ کنٹرول کرنے پر ایس ایچ او کو معطل کردیتے ہیں، معطل ہونے والا ایس ایچ او سوچ رہا ہوتا ہے میں تو چوبیس گھنٹے علاقے میں 25، 30 اہلکاروں کے ساتھ جرائم قابو کرنے کی کوشش کررہا تھا، مجھے ہی معطل کردیاگیا، صاحب نے اپنے کماؤ پوت ایس ایچ او کو تو بچالیا میری قربانی دیکر، چلو اگلی پوسٹنگ کیلئے صاحب خاص آدمی کے پاس چلیں۔

رینجرز کے افسران اور ملازمین بھی ان دنوں اسی طرح واٹس اپ پر آپریشن جاری رکھے ہوئے ہیں، اور رینجرز پی آر او واٹس ایپ پر خبریں دیتے ہیں جو چینلز پر بریکنگ بن کر چل جاتی ہیں، ظاہر ہے چھ ملزمان پکڑے ہوتے ہیں کوئی آسان کام تھوڑی ہوتا ہے۔

آخر واٹس ایپ میسج کے بعد اس آپریشن میں کہیں کامیابی ملی ہوتی ہے۔ ان دنوں افسران کو تھکا دینے والی میٹنگز کو واٹس اپ پر ہونی چاہئیے۔

ڈی ایس پی ٹریفک کی شہادت کے بعد واٹس اپ ایپکس کمیٹی کے اجلاس کی ویڈیو موصول ہوئی جسے دیکھ کر لگ رہا تھا افسران اور وزراء کتنے تھکے ہوئے ہیں اور یہ ساری میٹنگ واٹس اپ گروپ پر ایپکس کمیٹی کے نام سے ایک گروپ بناکر بھی تو ہوسکتی تھی۔

بیچارے افسران اپنا کاروبار کریں، رشوت کی رقم کو کاروبار میں لگانے کیلئے بلڈرز اور تاجروں سے ملاقاتیں کریں اور ساتھ میں یہ اجلاس پر اجلاس یقینا تھکا دینے والا کام ہے۔

واضح رہے کہ سندھ پولیس میں ایسے افسران بھی ہیں جو اپنی ڈیوٹی مکمل ایمانداری اور فرض سمجھ کر انجام دیتے ہیں اور محکمے میں اچھی شہرت کے حامل ہوتے ہیں، ان افسران کے بارے میں بجا طور پر کہا جا سکتا ہے یہ واٹس ایپ پولیسنگ نہیں کرتے، تاہم بد قسمتی سے ایسے افسران کی تعداد بہت کم ہے۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں