The news is by your side.

اٹھو مرنے کا حق استعمال کرو

ارے صاحب پوری دنیا کا ٹھیکہ ہم نے تھوڑی لے رکھا ہے ، ہم تو صرف اپنی سوچتے ہیں ، خوش باش رہتے اور موج مستی کرتے ہیں۔ انتخابات ہوتے ہیں ، دنگل سجتے ہیں ، باریاں لگی رہتی ہیں لیکن ایک ہم ہیں کہ ہمارے لبوں سے مسکراہٹ ہی دور نہیں ہوتی ۔

سیاست دان ہمیں بےوقوف بنا رہے ہوتے ہیں اور ہم اسی دھن میں بے فکرے سے اڑے پھرتے ہیں ۔ گھر میں آٹا دال ہو یا نہیں پروا نہیں جلسوں میں شرکت کرنا تو ضروری بنتا ہے ناں ۔ اب خواہ وہ شریفوں کی جماعت میں جا کر نعرے لگانے ہوں یا کپتان کے ساتھ مل کر مخالف جماعتوں کی وکٹیں گرانی ہوں ، خواہ بلے بلے پشتون کرنا ہو یا کسی مذہبی جماعت کی افطار پارٹی میں جانا ہو ، ہم ہر لمحہ تیار ہیں۔

ہم تو بھئی بس عوام ہیں جو ہر حال میں مست الست ہیں ، ہاں تھوڑی بہت فکر رہتی ہے کہ جب نل کھولو پانی نہیں آتا ، بازار جاؤ تو کوڑیوں کی سبزی لاکھوں کے بھاؤ ملتی ہے ، پنکھا لگاؤ تو بجلی دغا دے جاتی ہے لیکن کمال پھربھی ہمارا ہی ہے کہ ہم ان چیزوں اور سہولیات کے بل بھی دیتے ہیں جو ہمیں فراہم ہی نہیں کی جاتیں۔

اب دیکھ لیں آرہا ہے برکتوں اور رحمتوں کا مہینہ رمضان، ہم نے اس مہینے میں مہنگائی کر کے رحمتیں تو سیمٹنی ہیں ناں ، آخر کوئی ہمارے بچوں کے لئے بھی برکت ہو ۔ خالی پیٹ خالی معدہ کب تک ہم ایک دوسرے کی خدمت کریں ، نہ تو ہم خدائی فوج دار ہیں اور نہ ہی خلائی مخلوق ؟۔

ہم نے توایک دوسرے کو گالیوں سے نوازنا ہی ہے اور ساتھ ہی یہ بھی کہنا ہے کہ پتہ نہیں ہے کہ میرا روزہ ہے ، اب بھی بہت سا کھانا کوڑے دان کا مقدر بنے گا اور دوسری طرف ہم معصوم بچوں اور ان کے ساتھ ساتھ جانوروں کو بچ جانے والے کھانوں پر لپکتا دیکھ کر یہ ضرور کہیں گے کہ دیکھو کیسے گندا کھا رہے ہیں ، کوئی محنت مزدوری ہی کر لیں کیونکہ ہمیں تو سب کی آخرت اور اپنی دنیا کی فکر ہے ۔

شاید آپ اس تحریر سے یہ سمجھ رہے ہوں کہ ہم کوئی بہت بڑے لینڈ لارڈ ہیں تو اپنی غلط فہمی فورا دور کر لیجئے ہم تو ایک متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جنہیں روز یہ مشکلات برداشت کرنا ہوتی ہیں ، شاید آپ کو یاد ہو کہ شاعر انقلاب حبیب جالب نے کہا تھا

جینے کا حق اب سامراج نے چھین لیا
اٹھو مرنے کا حق استعمال کرو
ذلت کے جینے سے مرنا بہتر ہے
مٹ جاؤ یا قصرِ ستم پامال کرو

کاش جالب آج زندہ ہوتے تو انھیں تو بتا دیتے کہ ہمارے پاس تو مستقل مرنے کا بھی حق نہیں ہے کیونکہ ہم روز روز مرتے اور پھر جیتے ہیں ۔


اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں