آج کی دنیا میں اب ہاتنے فارغ تو ہم ہیں نہیں کہ ہر کسی سے ملنے کے لئے جائیں ، آخر ہمارا بھی کوئی اسٹینڈرڈ ہے ، ہمارا بھی کوئی معیار ہے ، اب ایسے تھوڑی ہوتا ہے کہ بلاوجہ بغیر کام کے ہرکسی سے مل لیا جائے اور ان کا دل بہلا یا جائے ،ہمارے رشتے دار بھی کون سا اچھے ہیں ، پروموشن ہو یا بیگم کی سالگرہ ہمیں اس طرح مدعو کیا جاتا ہے کہ جیسے ہمار ے بنا سانس ہی نہ آرہی ہو اور یہ تو پتا ہی ہے کہ جناب جتنا ان کا بجٹ آؤٹ ہواہوتا ہے اتنا ہی تو وہ ہم سے ریکوور کروا لیتے ہیں ویسے ہماری وزارت خزانہ کو ہمارے رشتے داروں سے ٹیوشن لینی چاہیے تاکہ ملک کی معاشی صورتحال بہتر ہو سکے ۔
یہ سب بہانے آپ کو اپنے اردگرد مل جائیں گے کہ فلاں ہم سے نہیں ملتا تو ہم کیوں زحمت کریں ، اور اتفاق سے مارے باندھے اگر مل بھی لیا جائے تو وہ کیا ہے ناں کہ بار بار چائے کا پوچھا ضرور جاتا ہے البتہ بنائی نہیں جاتی ، مہمان اپنی باتیں کر رہا ہوتا ہے اور بچوں سے لے کر بڑوں تک سب ہی موبائل گیمز ، پیغامات اور کالز میں کھوئے ہوئے ہوتے ہیں کہ مہمان خود ہی شرمندہ سا ہو کر واپسی کا ارادہ باندھ لیتا ہے ۔
کسی کی سالگرہ ہو ، کوئی بیمار ہو ، کسی کی شادی ہو سب چیزیں موبائل کے ذریعے ہی ہو رہی ہیں ، موبائل ایک ایسی چیز ہے کہ جس کے بغیر زندگی کا تصور ہی محال ہے کبھی کبھی تو موبائل کا شکریہ ادا کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے لئے دعا کرنے کو بھی د ل کرتا ہے کہ یا اللہ ہمارے موبائل کی خیر ہو کیونکہ یہ ایک ایسی طاقت ہے جس کی وجہ سے ہم اپنے رشتے داروں ، دوست احباب ، عزیز و اقارب اور دیگر تمام رشتے ناتوں کے ساتھ رابطے میں رہتے ہیں۔اگر یہی نہ رہا تو ہم حقوق العباد کیسے ادا کریں گے ؟۔
کیونکہ ہمارے پاس تو وقت کی اتنی کمی ہے کہ ہم موبائل کی وجہ سے ہی زندہ ہیں اور اسی کے باعث زندہ ہونے کا احساس دلاتے ہیں ۔کم ازکم دل کو اتنی تسلی تو ہوتی ہے ناں کہ واٹس ایپ سٹیٹس دیکھ کر ، فیس بک پر تصاویر دیکھ کر اور انسٹاگرام ویڈیو ز اور ٹویٹر استعمال کر کے ہم بے فکرے سے ہیں۔ تیمار داری ، شادی کی مبارک یا تعزیت براہ راست ہو یا ڈیجیٹل فرق تو کوئی نہیں ، رشتے تو نبھ ہی رہے ہیں ناں ، بس آج کی دنیا میں یہی کافی ہے۔
اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں