میری بیٹی میرے پاس بیٹھی اپنے خالہ زاد سے کاغذ کے جہاز بنانا سیکھ رہی تھی ۔ وہ اپنے کھیل میں اتنی مگن تھی کہ یہ بھی نہ دیکھ پائی کہ میں نے اس کے بنائے ہوئے ایک جہاز کا ایک پر سائیڈ سے موڑ کر اس کی شکل اور ہیت ہی بدل دی تھی ۔ صفا کے اس کھیل میں دلچسپی کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ سات ستمبر آنے والا تھا اور اس کے بابا بھی ایک فائٹر پائلٹ تھے لہذا گھر میں بھی اکثر ایسی باتیں ہی ہوا کرتی تھیں ۔
ہر سال ستمبر میں باپ بیٹی کا جوش و خروش دیکھنے لائق ہوتا تھا اور پھر جو جہازوں سے لے کرفوجی ٹریننگ پر بات پہنچتی اس کی خوبصورتی تو الفاظ میں بیان نہ ہو سکتی۔کیونکہ ایک طرف بابا صاحب بیٹی کو قائل کر رہے ہوتے تو کہیں لاڈلی صاحب زادی باپ کے کندھوں پر چڑھ کر انھیں ہی جہاز قرار دینے لگتی ۔
خیر بات ہو رہی تھی کاغذ کے جہازوں کی جو مجھے ابھی تک بنانا نہیں آیا اور سچ تو یہ ہے کہ میں نے بنانا بھی نہیں سیکھا ۔ لیکن ایسا بھی نہیں تھا کہ میں نے صفا کو ایم ایم عالم کی بہادری کا کچھ نہیں بتایا تھا اور نہ ہی پینسٹھ کی جنگ میں شہید ہونے والے ان جانبازوں کے قصے سنائے تھے جن خاص لوگوں کی محنت اور جانثاری کی وجہ سے ہم عام لوگ خاص بن گئے ۔ ہمارے ملک کی سرحدیں محفوظ ہو گئیں ۔
صفا کی عمر محض پانچ سال ہے اور میں اس کےساتھ اعداد و شمار اور الفاظ کے گورکھ دھندے میں خود کو پھنسانا نہیں چاہتی تھی ، لیکن اتنا ضرور بتاسکتی تھی کہ بیٹا یہ جنگ سچ اور حق کی جنگ ہے ۔یہ وہ جنگ ہے کہ جس میں نہ صرف ہمارے فوجیوں نے بارڈر پر بندوق سے دشمن پر حملے کئے بلکہ فضاؤں میں ایم ایم عالم جیسے عظیم غازیوں نے اپنے مدمقابل قوتوں کو شکست فاش دی ۔
میں اپنی بچی کو یہ بھی بتانا چاہتی تھی کہ انیس سو پینسٹھ کی جنگ میں صرف فوجیوں نے قربانیاں ہی نہیں دیں ؟ ہمارے گلوکاروں جنہوں نے برستی آگ میں جا کر اپنی فوج کا مورال بلند کر نے کے لئے ملی نغمے گائے اور موسیقاروں نے فی البدیہہ موسیقی ترتیب دی انھوں نے بھی اس مادر وطن کا ساتھ دیا ، ہم توسیالکوٹ اورلاہور کے ان شہریوں کے بھی مقروض ہیں جن ماؤں نے بارڈر پر پہنچ پر پاک فوج کو اپنی موجودگی کا یقین دلایا اور ان کی ہمت بندھائی ۔
صفا یہ ساری باتیں غور سے سن بھی رہی تھی اور سمجھنے کی کوشش بھی کر رہی تھی ، میں اسے یہ بتا رہی تھی کہ بیٹا یہ ملک تو ہم نے بہت قربانیوں کے بعد حاصل کیا ، یہ تو ہماری آخری پناہ گاہ ہے ، ہماری محنت کا پھل ہے ، ہمیں اسے ضائع نہیں کرنا کیونکہ یہ ہمارا آخری جزیرہ ہے ، ہمارا جینا ہمارا مرنا اسی ملک کے ساتھ ہے ، ہم اس کی مٹی میں بسے ہوئے ہیں ، اسے خراب کر کے ہم خود بھی خوش نہیں رہ سکتے ۔
لیکن وہی آج کل کے بچے جب اس نے یہ سنا تو دوڑ کر بستر پر پڑا کاغذ کا مڑا ہوا جہاز لے آئی ، ’’ مما مما دیکھیں ناں یہ جہاز بھی ایسا ہی تھا جیسا آپ نے ابھی بتایا ، میں نے بھی تو اس پر اتنی محنت کی تھی ، یہ میرا بھی تو ’’ لاسٹ آئی لینڈ ‘‘ تھا ، آپ نے اس کو کیوں خراب کردیا ، یہ میرا بھی تو کنٹری تھا ؟‘‘
میرے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں تھا کیونکہ وطن سے محبت کا درس دینا بہت آسان ہے لیکن صفا کی طرح اصل معنوں میں محب وطن ہونا بہت مشکل ہے ۔