اس فانی دنیا میں ہر کوئی کسی نہ کسی خوف میں مبتلا دکھائی دیتا ہے ، زندگی کی بھاگ دوڑ ہمیں ایک طرف تھکا دیتی ہے تو دوسری جانب اپنی منزل پر پہنچنے کے لئے وسیع سوچ کا تعین کرنے کا حوصلہ بھی دیتی ہے ۔ کوئی بیماری یا موت کے خوف میں گھرا ہوا ہے تو کسی کو یہ پریشانی لاحق ہے کہ میرے دوست احباب مجھے چھوڑ گئے تو کیا ہو گا ؟ بڑھاپے میں تنہائی کا ساتھی کون بنے گا یہ فکر بھی انسان کو مایوسی کی طرف دھکیل دیتی ہے ۔
حالانکہ دیکھا جائے تو یہ سب خوف یقینا موجود تو ہیں لیکن ایک التباس کی صورت ، کیونکہ ہم اپنی کم فہمی یا کم ہمتی کہہ لیجیے اس کے ذریعے ان کو اپنے ذہن میں اور بھی پختہ کر لیتے ہیں۔ لیکن ان مسائل اور ڈر کا درست معنوں میں ادراک کرنے کے لئے کیا ہمیں ان کا مکمل طرح سے جاننا ضروری نہیں ؟ خوف کی ہمیشہ سے دو اہم اقسام ہوتی ہیں ، ایک جسمانی اور ایک ذہنی یا نفسیاتی ۔
فرض کر یجیے کہ اگر کوئی شخص درخت پر چڑھنے سے خوف زدہ ہے تو یہ صرف نفسیاتی خوف ہے جس پر مضبوط قوت ارادی سے قابو پایا جا سکتا ہے لیکن دوسری جانب اگر کوئی بنا سوچے سمجھے اور تیراکی کی تربیت لئے بغیر ہی دریا میں کود جاتا ہے تو اسے ہم یقینا ایک جسمانی خوف کہیں گے اور یہ ہونا بھی چاہیے ۔ بنیادی طور پر ہر کچھ پا لینے کی خواہش اور چیزوں یا افراد کے ساتھ ہماری وابستگی بھی ہمیں مایوسی کی دلدل میں پھنسا دیتی ہے ۔ جس طرح ایک ماں کا بچے کے ساتھ تعلق ہوتا ہے فطری طور پر وہ نو ماہ اس کے شکم میں بھی رہا ہوتا ہے تو وہ ساری زندگی ایک کمفرٹ زون میں ہی رہنا چاہتا ہے ۔ ماں پر اس کا انحصار بڑھنے لگتا ہے اور شاید دوسرے رشتوں پر اسی انحصار کو ہی ہم محبت کا نام دینے لگتے ہیں ۔
اب ہوتا یہ ہے کہ زندگی کا کام ہے مسلسل چلتے رہنا ، چیزیں ، حالات اور حتی کہ انسان اور ہمارے رشتے بھی کبھی ایک سے نہیں رہتے ، لوگوں کے رویوں میں یہ بدلاؤ بھی ہمارے اندر ایک خوف کو جنم دیتا ہے کہ فلاں مجھے چھوڑ گیا تو کیا ہو گا ، یا دنیا سے ہی چلا گیا تو میں جی نہیں پاؤں گا۔
جناب ! یہ سب باتیں کم حوصلگی کی باتیں ہیں ، زندگی بہت حسین نہ سہی خوب صورت تو ہے ، کسی سے بھی حد سے زیادہ توقعات کا وابستہ کرلینا کوئی دانش مندی نہیں ۔ من پسند نوکری یا امتحانات میں گریڈز کا نہ ملنا زندگی ختم تو نہیں کر دیتا بلکہ شاید اس رب تعالی کی مرضی کو بہتر انداز سے آپ پر واضح کر دینے کا ہی نام ہوتا ہے ۔
خوف پر قابو پانے کے لئے اسی خوف کا سامنا کیجئے ، لوگوں کے ساتھ تعلقات میں ایک حد فاصل ضرور رکھیے ، بے شک دکھوں کو بیان کرنے کے لئے آپ کو ایک کاندھا درکار ہے لیکن آپ کے دل میں بھی ایک قبرستان کی ضرورت ہے جہاں اپنے رشتوں کی تمام تر خامیوں کو دفنا سکیں ۔ تمام لوگوں کو ان کی خوبیوں اور خامیوں کے ساتھ قبول کریں ۔ اپنا تقابل کسی کے ساتھ بھی مت کریں کیونکہ اس وجہ سے بھی انسان میں بے چینی جنم لینے لگتی ہے اور یہ بھی ایک انجانے خوف کو جنم دیتی ہے
خود کو توہمات کا عادی مت بنائیں ، یہ ضعیف العتقادی کی نشانی ہے ۔اپنے آپ کو معاشی طور پر خوشحال بنانے کی بھرپور کوشش کیجیے کیونکہ پیسے کا براہ راست تعلق آپ اور آپ کی فیملی کی خوشیوں سے ہے ۔ لیکن پیسہ بھی اتنا ہی کمائیں جتنا آپ کو معاشی فکروں سے آزاد کر دے نہ ہی آپ میں اور کی خواہش کو پیدا کر دے ۔ سو دنیا میں کون سا ایسا خوف یا ڈر ہے جس کا حل نہیں اور کیا کچھ ہے جو آپ کر نہیں سکتے، بس بات صرف لگن ، حوصلے اور مضبوط قوت ارادی کی ہے ۔