The news is by your side.

عید کی خوشیوں میں‌ وطن کے شہید بیٹوں کو یاد رکھیے

عید کا دن ہمیں‌ اپنوں کے ساتھ مل بیٹھنے اور ہنسنے بولنے کا موقع دیتا ہے۔ یہ ایسا تہوار ہے جب سارے گلے شکوے بھلا کر ایک دوسرے کو گلے لگایا جاتا ہے۔ پردیسیوں کو ان کے گھر والے دروازے پر دیکھ کر خوشی سے رو پڑتے ہیں اور ان کے لوٹ جانے کے بعد بھی ان کے ساتھ گزرے ہوئے لمحات اور ان کی یادوں کو سینت سینت کر رکھتے ہیں۔ لیکن کچھ سربکف، کچھ سرفروش اپنے گھر سے دور عید کی ان خوب صورت ساعتوں میں بھی وطن کی حفاظت کے لیے سرحدوں پر اپنی ڈیوٹی پر ہوتے ہیں۔

کیا ان کی مائیں ان کا راستہ نہیں دیکھتی ہوں گی، کیا ان کی بہنیں ان کا انتظار نہیں کرتی ہوں گی، کیا ان کا باپ عید کے دن اپنے بیٹے کو گلے لگانے کی آرزو میں بار بار دروازے کی طرف نہیں دیکھتا ہوگا اور ان جوانوں کے معصوم بچّے عید کے دن اپنے بابا کو یاد نہیں کرتے ہوں گے، لیکن ان سرفروشوں کا تو ہر جذبہ اور ہر محبت، وطن کی محبت پر مقدم ہے، ان کو اپنی جان وطن کی آن سے زیادہ پیاری نہیں ہے اور یہی جان وہ اس مادرِ وطن کی سلامتی پر نچھاور کر کے جنت کے مہمان بن جاتے ہیں۔

پاک فوج کے جوانوں کی سرحدوں کے دفاع اور استحکام پاکستان کے لیے دی گئی قربانیوں کا شمار ممکن نہیں۔ بیرونی خطرات سے نمٹنے اور دشمن کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملانے کے لیے جوانوں نے اپنا خون بہایا ہے۔ کتنے بہادر اور سرفروش بیٹے میدان جنگ میں اور زمانہ امن میں بھی اپنی ڈیوٹی کی انجام دہی کے دوران شہید ہوگئے، سبھی کی قربانیوں کی قوم قدر کرتی ہے۔ حکومت نے ان کو اعزازات سے نوازا اور جب ان کا ذکر کیا جاتا ہے تو ہمارا سر فخر سے بلند ہوجاتا ہے کہ جس قوم کے فرزندوں کا جذبہ اور شوق شہادت ایسا ہے، اسے دنیا کی بڑی سے بڑی طاقت شکست نہیں دے سکتی۔ پاک فوج کے جوان شہادت کو اپنا سب سے بڑا اعزاز سمجھتے ہیں۔

گزشتہ دو دہائی کے دوران ملک کے اندر دہشت گردوں نے بیرونی سازشوں اور ان طاقتوں کے کہنے پر کارروائیاں شروع کیں جنہیں پاکستان کا وجود اور اس کی ترقی و خوشحالی کھٹکتی رہی ہے اور مفاد پرست گروہوں کو وطن عزیز کا امن برباد کرنے اور اسے عدم استحکام سے دوچار کرنے کے لیے استعمال کیا گیا جس کے جواب میں پاک فوج نے کئی اہم اور بڑے فوجی آپریشن کیے اور دہشت گردوں سے لڑائی میں ہمارے افسر اور جوان شہید ہوئے جن کی قربانیوں کو ہم ہمیشہ یاد رکھیں گے۔ ہمارے جوانوں کی لازوال قربانیوں کے ساتھ شہدا کے اہل خانہ بھی اس لیے لائق تحسین ہیں کہ انہوں نے قوم کی خاطر خود سے اپنوں کی خود سے دوری برداشت کی اور کسی وقت محاذ پر بلایا گیا تو ماؤں نے پیشانی چوم کر اور شجاعت کا درس دے کر گھروں سے رخصت کیا۔

یہ شہید اللہ کے ایسے خاص مہمان ہیں جن کے بارے قرآن میں‌ فرمایا گیا ہے:
’اور جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کیے گئے ہیں، تم انہیں مردہ مت خیال کرو، بلکہ وہ اپنے ربّ کے پاس زندہ ہیں اور انہیں رزق بھی دیا جاتا ہے۔‘‘

کراچی سے تعلق رکھنے والے میجر عدیل شاہد بھی اللہ کے انہی خاص مہمانوں میں شامل ہیں۔ انہوں نے وطن کی سلامتی پر جان قربان کر دی لیکن اپنے وطن پر آنچ نہ آنے دی۔

آج چاند رات ہے۔ اللہ تعالیٰ ماہِ رمضان کی معطر ساعتوں‌ کے اختتام پر روزہ داروں پر خاص انعام اور عید الفطر کے موقع پر ان کو حقیقی خوشیوں‌ سے نوازے گا، لیکن یہ عید میجر عدیل کے اہلِ خانہ کے لیے گزشتہ عیدوں سے بالکل مختلف ہے۔ میجر عدیل شہید کے بارے میں ان کے والد سید شاہد حسین زیدی سے بات ہوئی تو اس حقیقت کا ادراک ایک بار پھر ہوا کہ راہ وفا پر چلنے والوں کا انتخاب رب کریم خود کرتا ہے۔

میجر عدیل شہید کے والد نے اپنی فیملی کے بارے میں بات کرتے ہوئے بتایا کہ میرے چار بچے ہیں۔ عدیل پاکستان آرمی میں میجر تھا۔ اس کا تعلق ایئر ڈیفنس سے تھا ۔ وہ بہت فرمانبردار تھا، اس کے دل میں لوگوں کے لیے بڑی ہم دردی تھی، کسی کو تکلیف میں‌ دیکھ نہیں سکتا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ بچپن سے ہی اسے شہادت کا شوق تھا، بچے جس طرح مختلف کھیل کھیلتے ہیں، عدیل بھی جب چار پانچ سال کا تھا تو اپنی بہن کو کہتا تھا باجی مجھے آپ مجھے تکیے سے ماریے گا تو میں گر جاؤں گا، پھر میں شہید ہو جاؤں گا۔ میرے اوپر چاندنی ڈال دیجیے گا، پھر اس کے بعد جو پاپا نے الماری میں رکھا ہوا ہے پاکستان کا جھنڈا اس میں مجھے لپیٹ کر میرے سرہانے کھڑے ہوکر پڑھیے گا اے راہ حق کے شہیدو۔ اور یہ کھیل اس کا پسندیدہ تھا۔ اور جس شدت سے وہ چار پانچ سال کا بچہ یہ کھیل کھیلتا تھا تو وہ رب اس بچے کی یہ خواہش کیسے پوری نہ کرتا اور اسے اپنا مہمان نہ کرتا۔ شہید کے تعلیمی کیریئر کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ عدیل نے گلشن اقبال ڈگری کالج سے ایف ایس سی کیا، ایم پی اے کے لیے اس نے کراچی یونی ورسٹی میں داخلہ لیا، ایک سمسٹر کیا تھا اور اسی دوران آئی ایس ایس بی کے لیے اور اس کا سلیکشن ہوگیا تو وہ سیکنڈ سمسٹر چھوڑ کر آئی ایس ایس بی چلا گیا تھا۔ 2007 میں پی ایم اے 119 لانگ کورس کے لئے منتخب ہوا اور 26 اپریل 2009 کو بی اے کی ڈگری حاصل کرکے پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول سے پاس آؤٹ ہو کر آرمی ایئر ڈیفنس کور میں شامل ہوگیا۔

انہوں نے بتایا کہ میجر عدیل شہید کی پہلی پوسٹنگ اپریل 2009 میں 161 آر سی جی، ایئر ڈیفنس رجمنٹ سرگودھا میں ہوئی۔ جہاں انہوں نے پانچ سال میں گنز کے ذریعے دشمن کے لڑاکا طیارے گرانے کی تربیت حاصل کی اور ساتھ ہی ایڈجوٹنٹ شپ، ٹروپ کمانڈر اور بیٹری کمانڈر جیسے اہم فرائض انتہائی جانفشانی اور لگن سے سرانجام دیے اور 23 مارچ 2012 کو ترقی پاکر کیپٹن بنے۔

انہوں نے بتایا کہ میجر عدیل نے آر پی وی (Remotely Piloted Vehicle) کورس بڑی محنت سے امتیازی پوزیشن سے مکمل کیا۔ جب کہ چین بھی گئے جہاں سے ڈرون اڑانے، گرانے اور کنٹرول کرنے کا ایڈوانس کورس کیا، جب کہ دورانِ سروس کئی حساس مقامات اور سیاچن جیسے پُرخطر علاقوں میں بھی پوسٹنگ رہی۔

6 ستمبر 2015 میں انسٹرکٹر کی حیثیت سے اسکول آف آرمی ایئرڈیفنس ملیر میں پوسٹ کیا گیا جب کہ 23 مارچ 2017 کو یومِ پاکستان کے موقع پر ترقی پاکر میجر بن گئے۔

یکم اپریل 2019 کو میجر عدیل ایف سی خیبرپختونخوا کی ایک کور نارتھ، مہمند رائفلز میں پوسٹ کردیے گئے۔ بتاتی چلوں کہ یہ پاک افغان سرحد کا انتہائی حساس علاقہ ہے۔ اس علاقے میں دشمن بارودی سرنگیں بچھاتا رہتا ہے۔ 20 ستمبر 2019 کو بھی چند بارودی سرنگوں کی اطلاع ملی تھی جن کو ناکارہ بنانے کی ذمہ داری ایک بم ڈسپوزل اسکواڈ کو سونپی گئی تھی جس کا انچارج ایک کیپٹن کو بنایا گیا۔ مگر اس موقع پر میجر عدیل نے رضاکارانہ طور پر خود بم اسکوارڈ سربراہ کی ذمہ داری قبول کی اور خطرناک سرچ آپریشن پر روانہ ہوگئے۔ ابھی متعلقہ جگہ پر سرچ آپریشن جاری تھا کہ 12 بج کر 15 منٹ پر ایک بارودی سرنگ خوفناک دھماکے سے پھٹ گئی۔ اس میں‌ میجر عدیل اور ایک جوان فراز حسین شہید ہوگئے۔

ان کے والد نے بتایا کہ میرے چاروں بچے میرے دوستوں کی طرح ہیں، عدیل جب بھی چھٹیوں پر آتا تو میری بہت خدمت کرتا اور اکثر میرے پیر دباتا اور باتیں کرتا رہتا تھا، وہ اپنی والدہ اس کی زندگی میں‌ ان کے ساتھ بھی اسی طرح اپنا پیار جتاتا تھا اور کبھی کسی کام کے لیے منع نہیں کرتا تھا۔ وہ اپنے دوستوں میں بہت مقبول تھا، بہت ملنسار تھا، ہر رشتہ نباہنا جانتا تھا۔

شادی اس کی ایک شہید کیپٹن کی بیوہ سے ہوئی تھی۔ شادی کے لیے بھی اس کا یہ کہنا تھا کہ میری شادی کسی بیوہ سے کروا دیں جو آرمی کے شہدا ہیں، ان کی کسی بیوہ سے ہی کرنا چاہتا ہوں، عدیل نے نہ صرف شہید کیپٹن کی بیوہ کو اپنایا بلکہ ان کی بیٹی کو اپنی جڑواں بیٹیوں سے بھی زیادہ پیار کرتا تھا۔ اس کی تین بیٹیاں ہیں، بڑی بیٹی اب چھ سال کی ہوگئی ہے اور دونوں چھوٹی تین سال کی ہوگئی ہیں۔

میجر عدیل شہید کے والد نے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میرا مشن بہت سادہ سا ہے میں پاکستان میں جتنے بچے ہیں ان سب میں پاکستان کی محبت بھر دینا چاہتا ہوں اور ملک کی خدمت بھی کرنا چاہتا ہوں اس کی خواہش تھی کہ ماں کے نام کے پر کوئی اسپتال بنا دیں تو ہم نے اس کی شہادت کے بعد ایک این جی او بنائی ہے اور اس پر ہم کام کررہے ہیں ہمارا بنیادی کام یہی ہے کہ ہم ففتھ جنریشن وار کے بارے میں لوگوں کو آگاہی دیں اور لوگوں کو یہ سمجھانا چاہتے ہیں کہ یہ فوج دنیا کی بہادر ترین فوج ہے اور اگر یہ فوج نہ ہوتی تو پاکستان بھی نہ ہوتا۔ انہوں نے بتایا کہ شہید میجر اپنی بیٹیوں کو ایئر فورس میں بھیجنا چاہتے تھے اور ان کی بیوہ کا بھی یہ عزم ہے کہ وہ اپنی تینوں بیٹیوں کو پڑھا لکھا کر پاک فوج میں‌ بھرتی کروائیں گی جیسا ان کے شہید شوہر چاہتے تھے۔

نم آنکھوں اور رندھے لہجے سے بتایا کہ جس دن اس کی شہادت ہوئی تو میں یہی سوچ رہا تھا کہ وہ بچپن سے جو بات کہتا تھا پوری کرتا تھا اور اس کی زندگی کی سب سے بڑی خواہش شہادت تھی اور وہ بھی اس نے پا ہی لی۔ میرا سر فخر سے بلند تھا کہ میرا بیٹا ملک پر قربان ہوگیا لیکن وہ مجھے چھوڑ کر چلا گیا اس کا دکھ بھی ہے مجھے۔

عید کا دن لوگوں کے لیے عید کا دن ہوتا ہے لیکن میرا دن اس کو یاد کرتے کرتے گزرتا ہے کیونکہ ڈیوٹی پر ہوتا تھا تو پتہ ہوتا تھا کہ ڈیوٹی پر ہے۔ اس کا کھانا پینا بہت یاد آتا ہے کیونکہ وہ کھانے پینے کا بہت شوقین تھا اس کی ہر بات عید والے دن یاد آتی رہتی ہے لیکن جو کام اس نے کیا ہے وہ ہماری سوچوں پر غالب آجاتا ہے آنکھوں میں آنسو ہوتے ہیں لیکن سر فخر سے بلند ہے میرا کیونکہ میں کسی بزدل نہیں بلکہ ایک ایسے سپوت کا باپ ہوں جس نے اپنے فرض کے لیے اپنی جان دے دی۔

عید کی خوشیوں میں یہ ضرور یاد رکھیں کہ یہ وردی پہنے جوان ہمارے ان خوب صورت لمحوں کے لیے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر گھر سے دور رہتے ہیں‌ اور ملک و قوم کی حفاظت کو یقینی بناتے ہیں۔ خدا ان کو سلامت رکھے اور ہاں عید والے دن ہاتھ اٹھا کر ایک بار وطن پر جان دینے والے ان شہدا کے لیے بھی دعا ضرور کیجیے گا۔

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں