The news is by your side.

بچوں کا مستقبل بڑوں کے ہا تھ میں!

”میں تو بائیلوجی لوں گا، مجھے ڈاکٹر بننے کابہت شوق ہے میں…“ ”بابر نے اپنے شوق کا اظہار کیا ہی تھا کہ ابو نے ٹوک دیا، ”بابر تم کامرس لو گے تم کو بینکر بننا ہے۔“

”ہرگز نہیں میرا بیٹا انجینئر بنے گا۔“ امی نے حتمی لہجے میں کہا۔

انجینئر کیوں بھابھی؟ میرا ایک ہی تو بھتیجا ہے یہ پاک آرمی میں جائے گا۔”نہ بینکر نہ ڈاکٹر ہمارا پوتا پائلٹ بنے گا۔“ دادا میاں نے گویا فیصلہ سنا دیا۔

بابر لیکن، اگر، مگر کرتا رہا، پر اُس کی کوئی سن ہی کب رہا تھا۔ بڑے اُس کے بارے میں فیصلہ سنا رہے تھے۔ اپنی رائے ہر ایک کو عزیز تھی اور وہ جس کے مستقبل کے بارے میں فیصلے ہورہے تھے اسے تو کوئی گردان ہی نہیں رہا تھا۔ بابر کے شوق اور رجحان کی کسی کو پروا نہیں تھی۔ ہر ایک اپنی خواہش اور تاویل کو درست اور قابل عمل قرار دینے پر مُصر تھا۔

والد کا فلسفہ تھا کہ جب باپ بینکر ہے تو بیٹے کو بھی بینکر ہی ہونا چاہیے۔ جب کہ خود اُن کے والد کاروباری آدمی تھے جس سے اُنہیں سخت نفرت تھی۔ والدہ کا اصرار تھا میں نے تو ہمیشہ بابر کے انجینئر بننے کا خواب دیکھا ہے۔ میری ساری بہنوں کے بچے انجینئرنگ پڑھ رہے ہیں، میرا بابر کیوں کسی سے پیچھے رہے؟دادا کا ارشاد تھا کہ خاندان میں ڈاکٹر بہت ہیں، بچپن ہی سے مجھے جہاز اُڑانے کا شوق تھا، نظر کی کمزوری سے مات کھا گیا۔ اب میرے خواب میرا لاڈلا پوتا پورا کرے گا۔

اصرار، انکار، اور تکرار نے مل کر بابر کو بد حواس کر دیا تھا۔ اُس کی تمام عزیز ہستیاں اُسے اپنے خوابوں کے نگرمیں آباد دیکھنا چاہ رہی تھیں۔ ہر کوئی اُسے اپنی خواہش کے مطابق جینے پر مجبور کر رہا تھا اور بابر! جس کے مستقبل کی با ت ہو رہی تھی، اپنے بے تعبیر خوابوں کی کرچیاں دل میں چبھتی ہوئی محسوس کر رہا تھا۔ اُن خوابوں کی جو اُس نے اپنے مستقبل کے لیے دیکھے تھے اور اُن خوابوں کی بھی جو اُس سے متعلق اُس کے چاہنے والوں نے دیکھے تھے جن کی زد میں آکر وہ فٹ بال کی گیند کی طرح کبھی اِدھر لڑھکتا کبھی اُدھر۔ چاچو کو جب ساری صورت حال کا علم ہُوا تو وہ فیصلے کی تلوار بابر کے ہاتھ میں تھما کر اُسے میدان کار زار میں تنہا چھوڑ گئے۔

بابر سخت کشمکش میں مبتلا تھا۔ اُس کا مسئلہ سمجھنے کی کوشش کوئی بھی نہیں کر رہا تھا، کتنی ہی بدگمان سوچیں اُس کے احساس کو زخمی کر رہی تھیں، وہ سب سے خفا تھا۔ کسی کو اس کی پروا نہیں تھی۔ سب اُس سے محبت کا دعویٰ بھی کر رہے تھے اور اپنی خواہش کو اہم بھی سمجھ رہے تھے۔

بابر نے حال ہی میں مڈل کے امتحان میں اوّل پوزیشن حاصل کی تھی۔ اُسے چائلڈ اسپیشلسٹ بننے کا بہت شوق تھا اور اس خواہش کا اظہار کرنا ہی غضب ہو گیا تھا۔ گو کہ ابھی بابر چھوٹا تھا، لیکن بڑوں کے غیر دانش مندانہ رویّے نے اُسےسمجھدار بنا دیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اُس نے نہ تو کاکول اکیڈمی میں داخلہ لیا اور نہ ہی سائنس یا کامرس گروپ کا انتخاب کیا بلکہ آرٹس کے مضامین لے کر سب کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا۔ بابر کی خود سَری پر بہت لعن طعن کی گئی لیکن اُس نے بھی ایک کان سے سُن کر دوسرے کان سے اُڑا دیا۔ اور پھر وہ وقت بھی آیا جب اُس نے اپنے خوابوں کے عین مطابق سماجی بہبود میں ایم اے کی سند حاصل کر لی۔ بابر نے اپنا تعلیمی سفر ایک عزم کے ساتھ جاری رکھا اور وہ دن بھی آیا جب بابر جو MBBS کرنا چاہتا تھا، ڈاکٹریٹ کی سند پا کر بہت مسرور تھا۔ اُس کے PHD کے مقالے کا موضوع تھا، ”بچوں کا مستقبل بڑوں کے ہا تھ میں۔“

یہ تو محض ایک بابر کی کہانی ہے جس نے اپنے خوابوں کے مطابق نہ سہی لیکن اپنی منزل کا تعین کر کے تعلیم حاصل کی مگر بابر جیسے کتنے ہی طالب علم اور نوجوان سمت کا تعین کیے بغیر سفر کر رہے ہیں۔ حالاں کہ آج کا طالب علم ماضی کے مقابلے میں زیادہ ذہین، باصلاحیت ہے اور اس کی معلومات وسیع اور تعلیم کے ذرائع اور طریقے بھی کل سے بہت مختلف اور زیادہ مؤثر ہیں پھر کیا وجہ ہے کہ وہ مطمئن نہیں؟ شاید آج کا طالب علم بیک وقت بے فکرا بھی ہے اور ذہنی انتشار کا شکار بھی۔ گو وہ جدید علوم پر بھی دسترس رکھتا ہے، بظاہر پُراعتماد بھی نظر آتا ہے، لیکن ماضی میں طالبِ علم اپنے مقصد کا تعین کر لیتا تھا۔ وہ یہ بھی جانتا تھا کہ تعلیم کیوں حاصل کر رہا ہے؟ میں سمجھتی ہوں کہ اسے یہ بھی علم تھا کہ مستقبل کے لیے اسے کن مضامین اور کس راستے کا انتخاب کرنا ہے۔ وہ حصول علم کو محض فیشن یا ضرورت کا ذریعہ نہیں سمجھتا تھا، یہی سبب تھا کہ منزل کا حصول اس کے لیے مسئلہ کبھی نہیں بنا۔ آج بیشتر طلباء یہ بھی نہیں جانتے کہ وہ کیوں پڑھ رہے ہیں؟ کیا پڑھ رہے ہیں؟ اور یہ بھی کہ اس کا مقصد کیا ہے۔

کئی طالب علم والدین کا فیصلہ قبول کرکے آنکھ بند کر کے اس راستے پر چل نکلتے ہیں اور اس وقت تو صورتحال بہت سنگین ہو جاتی ہے جب بچّے کے رجحان کے برعکس بڑے اپنی خواہش کے مطابق اس کے لیے مضامین اور شعبے کا انتخاب کرتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ تعلیم میں پہلے ہی دل چسپی نہ لینے والا طالب علم مزید خود سر ہو جاتا ہے اور جب کوئی اُن کی تعلیم اور مقصد سے متعلق سوال کرتا ہے تو وہ بے نیازی سے کہہ دیتے ہیں کہ ”پپا نے کہا تھا تم کو میڈیکل میں جانا ہے۔ یا پھر ماما کی خواہش تھی کہ انجینئر بننا ہے۔“

گویا بڑے اپنی تشنہ آرزوؤں کی تکمیل کا ذریعہ بچوں کو بنا لیتے ہیں، اور چونکہ بچوں کو ان کے منتخب کردہ مضامین سے دل چسپی نہیں ہوتی اس لیے لگن اور محنت کے جذبے سے عاری ہو کر وہ پڑھتے ہیں جو اُن کی سمجھ میں ہی نہیں آتا۔ امتحان میں‌ موقع ملے تو نقل کرتے ہیں اور اپنی منزل کا تعین کرنے میں بالخصوص ناکام رہتے ہیں کہ حصول علم کے بجائے وہ پیسے کمانے کے خواب دیکھتے ہیں۔ وطن سے محبت اور اس کے لیے کچھ کرنے کا جذبہ ان میں مفقود ہوتا جا رہا ہے۔ نوجوان نسل کے اس بے ڈھب طرز عمل کا ذمہ دار کون ہے؟ والدین جو اپنی خواہشات کے مطابق انھیں تعلیم تو دلا دیتے ہیں لیکن اس کے سوا ہرمعاملے میں انھیں آزاد چھوڑ دیتے ہیں۔ یا اساتذہ جو تعلیم کے ساتھ تربیت کو ضروری خیال نہیں کرتے۔

اگر والدین بچوں کو اپنے مستقبل کے بارے میں فیصلے کا شعور دیں، تو یقیناً بچّے پُراعتماد بھی ہوں گے اور مہذب بھی۔ جو بچّے اپنے والدین کی راہ نمائی، ذاتی توجہ، اپنی ذات میں اُن کی دل چسپی کو محسوس کرتے ہیں وہ اُن بچوں کی بہ نسبت زیادہ بہتر قوتِ فیصلہ اور قوتِ عمل رکھتے ہیں جن کے والدین راہ نمائی کرنے کے بجائے حکم صادر کرتے ہیں۔ یا بچوں کی رائے کو اہمیت دینے کے بجائے ہر فیصلے کا اختیار اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں۔ ایسے نوجوان جب عملی زندگی میں قدم رکھتے ہیں تو اعتماد اور کام یابی اُن کے ہم رکاب نہیں ہوتی۔

آج بچوں اور نوجوانوں کی راہ نمائی اوران کی رائے کو اہمیت دیتے ہوئے اُن کا مستقبل روشن بنانے کی ضرورت ہے۔ انھیں عملی زندگی میں کام یاب ہی نہیں بہترین انسان اور کارآمد شہری بھی بنائیں کہ یہ محض بچّوں کا حق ہی نہیں والدین کا فرض بھی ہے۔

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں