عہدِ حاضر کے انسان جس مشینی ایجادات سے سب سے زیادہ مطمئن اور مستفید ہوتے ہیں وہ ہے ٹیلیفون اور پھر اسی کا تسلسل موبائل فون ہے کہ یہ انسانی رابطے کے نہایت مؤثر ذرائع ہیں۔ بغیر سفر کی مشقت جھیلے آواز کے توسط ہی سے سہی ملاقات تو ہو جاتی ہے۔ آج اکیسویں صدی میں بھی اگر کسی خاتون نے اپنے میاں کے موبائل فون پر کوئی پیغام سن یا پڑھ لیا اور انہوں نے اس پیغام کی نوعیت جانے بغیر اپنے ذہن کی کچی زمین میں شک کا بیج بو دیا تو ایک دن وہ تناور درخت بن سکتا ہے، اور میاں سے باز پرس پر گھر کا امن بھی خطرے میں پڑ جائے گا۔
موبائل فون سہولت سے زحمت بنتا ہی اُس وقت ہے جب یہ میاں بیوی کے معتبر رشتے میں اندیشوں سے دراڑ ڈال دیتا ہے کیونکہ بیویاں ہی نہیں شوہر بھی اپنی شریکِ حیات کے موبائل فون پر نظر رکھتے ہیں، لیکن خواتین کا تجسس مردوں کے تجسس سے کئی گنا زیادہ ہوتا ہے اور وہ اپنے شوہر کو محض اپنا کہنے اور سمجھنے پر ہی اکتفا نہیں کرتیں انہیں اپنی ملکیت بھی سمجھتی ہیں۔ اس لیے ان کی ہر شے پر اپنا حق سمجھتی ہیں خواہ وہ ہتھیلی میں سما جانے والا موبائل فون اور اس پر آنے والے پیغامات ہی کیوں نہ ہوں۔
ہم نے چند خواتین سے پوچھا کہ کیا آپ اپنے شوہر کا موبائل چیک کرتی ہیں؟ کیوں؟ شوہر کا ردعمل کیا ہوتا ہے؟
اختر شجاعت (سابق بینکر، محقق)
موبائل فون آج کل عورت کو اپنے لیے خطرہ محسوس ہوتا ہے اور جس کی یہ سوچ ہو گی تو وہ یقیناً اپنے شوہر کے موبائل فون کو چیک ضرور کرے گی، کیونکہ شک اس کو ایسا کرنے پر مجبور کرے گا۔ یہاں ساری بات یقین اور بھروسے کی ہے اور یہ یقین ہی آپ کے بھروسے کو بڑھاتا ہے۔ مجھے کبھی اس کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوئی کہ میں اپنے شوہر کا موبائل فون چیک کروں، جتنا مضبوط آپ کی محبت کا، آپ کے یقین کا، آپ کے بھروسے کا رشتہ ہو گا اتنی ہی آپ کی زندگی خوشگوار ہوگی، ورنہ ”صرف ایک شک“ آپ کے رشتے کو کھوکھلا کر دے گا۔ آپ کو اپنی ذات پر، اپنی محبّت پر اتنا بھروسہ ہونا چاہیے کہ اس میں کسی شک کی گنجائش نہ رہے۔ ورنہ صرف ایک موبائل فون چیک کر کے آپ کیا تیر مار لیں گی؟ کیونکہ مرد پر ہر وقت اور ہر جگہ تو نظر نہیں رکھی جاسکتی۔ تو میں سمجھتی ہوں کہ اپنے شوہر پر شک کے بجائے اپنی محبت کے رشتے کو مضبوط کریں۔
شازیہ انوار (صحافی)
رات کو جب میں فارغ ہوتی ہوں تو ان کا موبائل میرے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ میں اپنے اور ان کے دونوں موبائل فون پر الارم لگاتی ہوں۔ اب اگر نیند نہیں آرہی تو کوئی تو شغل چاہیے نا، تب میں تفریحاً ان کا موبائل دیکھتی ہوں جس سے میری معلومات میں اضافہ ہوتا ہے۔ کیونکہ میرے میاں بھی صحافی ہیں۔ ان کے پاس آنے والے دعوت ناموں سے مجھے شہر میں ہونے والی تقریبات کا پتہ چلتا ہے۔ بعض ایس ایم ایس پڑھ کر بہت انجوائے کرتی ہوں۔ صبح موبائل ان کے ہاتھ آتا ہے تو پھر میری صبح ان کے اس جملے کے ساتھ ہوتی ہے، ”تم نے پھر میرے موبائل کو ہاتھ لگایا۔“ میں کمال معصومیت سے کہتی ہوں، ”میں نے ہاتھ تھوڑی لگایا تھا، صرف الارم سیٹ کیا تھا اور جب دل میں چور نہیں تو میری ڈکیتی پر اعتراض کیوں؟“ وہ مجھے گھورتے ہیں اور ان کے گھورنے پر میں مزید ان کی محبت میں گِھر جاتی ہوں۔
نجمہ الطاف (خاتونِ خانہ)
بحیثیت مرد باپ ہو، بھائی ہو، شوہر یا بیٹا، ان کو مکمل طور پر قابلِ بھروسہ نہیں سمجھ سکتے، یہ کہیں نہ کہیں ڈنڈی مار دیتے ہوں گے۔ ہم خواتین ملازمت پیشہ ہوں یا خاتونِ خانہ، مرد کی پہرہ داری نہیں کر سکتیں۔ اگر آپ شوہر کی جاسوس بننے کی کوشش کریں گی تو جتنا چھانیں گی اتنا ہی کرکرا نکلتا ہے۔ میں صرف اتنا ہی جانتی ہوں،
وہ کہیں بھی گیا لوٹا تو میرے پاس آیا
بس یہی بات اچھی ہے میرے ہرجائی کی
میاں بیوی کے تعلق میں خوش رہنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ ایک دوسرے پر اعتماد کیا جائے اور کسی بھی قسم کی جاسوسی نہ کی جائے۔ ممکن ہے کہ آپ اس میں دھوکہ کھا جائیں۔ پروین شاکر کا ایک اور شعر یاد آگیا
میں سچ کہوں گی مگر پھر بھی ہار جاؤں گی
وہ جھوٹ بولے گا اور لاجواب کر دے گا
شوہر کو جھوٹ بولنے پر مجبور کرنے کے بجائے کوشش کریں کہ اس کی نوبت ہی نہ آئے۔
صدف آصف (مصنّفہ، ہوسٹ، میلبورن)
شوہر کا موبائل فون چیک کرنے کا جب بھی ارادہ کرو وہ اپنا سیل فون خود ہی دے کر کہتے ہیں یہ لو، کر لو چیک، ایک تم ہی کافی ہو چیک اینڈ بیلنس رکھنے کے لیے اور کوئی مصیبت گلے لگا کر مرنا ہے مجھے۔ ویسے بھی میاں جی کا فیس بک اور واٹس ایپ پر بزنس اکاؤنٹ ہے، میں اُن کا سیل فون چیک کرتے ہوئے پھنس جاتی ہوں، الٹا کمپنی یا کسٹمرز کی بھیجی گئی انکوائری کے جوابات دینے پڑ جاتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ اِس کو یہ جواب دو، اُس کو یہ جواب بھیج دو۔ اس لیے اب تو کان پکڑتی ہوں۔ خود ہی رکھیں اپنا موبائل اپنے پاس۔
شاہانہ جاوید (کالم نگار)
میں نے کبھی اپنے شوہر کا موبائل چیک نہیں کیا کیونکہ ضرورت ہی نہیں پڑی، ہم دونوں ہر موضوع پر بات کر لیتے ہیں، چاہے گھریلو مسائل ہوں یا ملکی سیاست۔لیکن گزشتہ دنوں ایک دل چسپ تجربہ ہوا۔ کچھ دنوں سے شوہر صاحب شکایت کر رہے تھے کہ میرے موبائل کا بیلنس جلدی ختم ہو جاتا ہے۔ آپ کال کرتی ہیں کیا؟ میں نے کہا نہیں کبھی نہیں۔ آپ مختلف پیکجز کرتے ہیں، شاید اس میں خرچ ہوتا ہو۔ راز اس وقت کھلا جب اگلے ہی دن ہماری نئی ماسی ان کا سیل فون استعمال کرتے ہوئے پکڑی گئی۔ نام ان کا سوہنی اور جناب وہ ماڈرن دور کی سوہنی اپنے مہینوال سے واٹس ایپ اور کال پر بات کرتی تھیں۔ وہ بھی اس وقت جب استری کرنے بیٹھتیں۔ اس وقت موبائل جاوید کے استعمال میں نہیں ہوتا تھا۔ جانے کیسے سوہنی نے سیل فون کا کوڈ کھول لیا۔ ہم سب کا ہنس ہنس کر برا حال تھا۔ شوہر صاحب شک بیگم پر کررہے تھے اور مجرم نکلیں مہینوال کی سوہنی۔
ڈاکٹر طیبہ صفی ( معلمہ، سڈنی)
آج سے تقریباً دس سال پہلے تک شوہر کا موبائل چیک کرتی تھی، اب جب سے عمر تھوڑی سی زیادہ ہوئی ہے میں نے ان کا موبائل چیک کرنا چھوڑ دیا ہے کہ ان کی عمر بھی بڑھ گئی ہے۔ پہلے ان کی بہت ساری خواتین سے دوستی تھی۔ میرے شوہر ڈاکٹر ہیں اور پیشہ ورانہ معاملات بھی ڈسکس ہوتے تھے لیکن شاید میں خود کو غیر محفوظ محسوس کرتی تھی حالانکہ کبھی انہوں نے شکایت کا موقع نہیں دیا۔ان کو پتہ بھی چل جاتا تو ان کا رد عمل مثبت ہی ہوتا تھا، ہنس کر کہتے تھے اور چیک کر لو۔
عظمیٰ بلوچ (براڈ کاسٹر)
جی بالکل نہیں۔ کیونکہ موبائل فون ان کا ہو یا میرا ہم نے پہلے ہی دن طے کر لیا تھا کہ پاس ورڈ دونوں کو پتہ ہوگا بلکہ یہ میرے میاں جی کا ہی مشورہ تھا کہ اچھا برا وقت کہہ کر نہیں آتا، آج کل سب سے اہم چیز ایک دوسرے سے رابطہ ہے اور فون میں ہم اپنی فیملی کی پکچرز، ضروری کاغذات کی نقل رکھتے ہیں جب دونوں کو ہی پاس ورڈ پتہ ہو گا تو کسی بھی موقع پر پریشانی ہی نہیں ہوگی۔
ماہین مشرف ( لندن)
کھوج کی نیت سے کبھی چیک نہیں کیا۔ کیونکہ ہمیں ایک دوسرے پر بھروسہ ہے اور خدانخواستہ ایسا کچھ ہوتا بھی تو وہی بات ہے نا پلٹ کر ان کو اِدھر ہی آنا ہے۔ اکثر ان کا موبائل لیتی ہوں لیکن خاندانی اپ ڈیٹ جاننے کے لیے کہ کیا ہو رہا ہے۔ وہ بھی اکثر میرا فون لے لیتے ہیں بینک کے کسی کام یا کوئی چیز دیکھنے کے لیے اور پھر واپس کر دیتے ہیں۔ ایسے میں ردِ عمل کیا ہوگا؟
فرح محمد (شیف)
سچ تو یہ ہے کہ میرے شوہر بہت اسمارٹ مائنڈ ہیں، اپنی باتوں میں الجھا کر مجھے آج تک موقع ہی نہیں دیا کہ ان کا موبائل چیک کر سکوں، اگر اس کا موقع ملتا تب ردعمل بھی معلوم ہو جاتا۔