The news is by your side.

بڑھتی ہوئی مہنگائی اور عیدقرباں کی خوشیاں

ایک مدت سے تھی بڑی مہنگائی

آگئی سر پہ یہ نئی مہنگائی

یوں تو وطنِ عزیز میں مہنگائی کا کھیل برسوں سے جاری ہے اور اس کے مشاق کھلاڑیوں کے حصے میں ہار کبھی آتی ہی نہیں، ہاں مہنگائی عوام کے گلے کا ہار ضرور بن گئی ہے۔

گزشتہ چند برسوں سے مہنگائی کا گراف بڑھتا ہی جارہا ہے لیکن رواں سال مہنگائی نے تمام سابق ریکارڈ توڑ کر عوام کو ناکوں چنے چبوا دیے۔ رمضان کا چاند نکلتے ہی مہنگائی کا چاند چڑھنا ہماری دیرینہ روایت ہے اور مہنگائی کا یہ طوفان عید کا چاند نظر آنے تک شدت اختیار کر جاتا ہے۔ اشیاء کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ کا رواج بھی اب ختم ہو گیا اب صرف دام چڑھتے ہیں، گھٹتے نہیں۔ چند برس ادھر کی بات ہے جب عیدِ قربان سے ایک ڈیڑھ ماہ قبل ہی قربانی کے جانوروں کی صدائیں گھر گھر سے سنائی دیتی تھیں، ایک کیا دو بکر ے بھی قربانی کے لیے خرید لیے جاتے تھے۔ حصہ بھی لے لیا جاتا تھا لیکن اب صورت حال یہ ہے بقول انور شعورؔ

بھلا بقرعید آئے گی اس برس

کہ سر پہ گرانی کا سیل آئے گا

رہا قیمتوں کا یہی حال تو

نہ دنبہ نہ بکرا نہ بیل آئے گا

ایک وہ وقت تھا کہ مویشی منڈی لگتے ہی سب مل کر بہت اہتمام سے منڈی جاتے اور واپسی پر منڈی کا حال سناتے ہوئے جانوروں کے دام بتاتے تو لوگوں کا ولولہ بڑھ جاتا۔ کسی ایک کا بھی جانور آجاتا تو محلے بھر میں خوشی کی لہر دوڑ جاتی۔آج یہ عالم ہے کہ مویشی منڈی سے منہ لٹکائے واپس آتے ہیں اور مویشی منڈی کا حال جاننے والے مویشیوں کے دام سن کر دل مسوس کر رہ جاتے ہیں۔ جانوروں کے چارے کی قیمت بھی خاصی بڑھ گئی ہے۔ عیدِ قرباں کی خوشی میں دکان دار اجناس اور دیگر مسالہ جات کے دام بڑھا کر خوب منافع حاصل کر لیتے ہیں۔ گیس اور بجلی کی بیشتر وقت عدم دستیابی کے باوجود بھاری بلوں نے الگ ادھ موا کر دیا۔ ان حالات میں مہنگائی کس طرح عیدِ قرباں کی خوشیوں پر اثر انداز ہو رہی ہے، یہ جاننے کے لیے ہم نے چند شخصیات سے رابطہ کیا۔ ان کے تأثرات پیشِ‌ خدمت ہیں۔

 ڈاکٹر فریدُ اللہ صدیقی (ناول نگار)

اصل میں عیدِ قرباں کی خوشیاں اس شخص کو حاصل ہوتی ہیں جو اللہ کی راہ میں کسی جانور کو قربان کرتا ہے۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی عام شخص کو جانور کی خریداری سے مجبور رکھتی ہے مگر اللہ کسی جانور کے گوشت اور خون سے مبرا ہے۔ کسی بھی انسان کا جذبۂ قربانی اس کی خوشی اور اللہ کی خوشنودی کا باعث ہے۔ انسان کی بندگی اور اللہ کی قبولیت کی خوشی میں کوئی مہنگائی حائل نہیں ہوتی۔

 سلیم مغل(صحافی۔ استاد)

اس عید پر کتنے لوگوں کے ارمان پانی بن کر بہہ گئے۔ ان گنت لوگ قربانی دینے کے قابل نہیں رہے۔ اسی طرح بہت سے لوگ اپنا ظاہری بھرم رکھنے کے لیے قربانی کر تو رہے ہیں مگر بڑے جبر اور صبر کے ساتھ۔ کچھ لوگ بچوں کی خوشیوں کی خاطر نہ چاہتے ہوئے بھی قربانی کی رسم نبھا رہے ہیں۔ مجھے لگتا ہے اس بار عیدِ قرباں لاتعداد لوگوں کے لیے ”مجبوری اور معاشرتی جبر“ کا عنوان بن کے آرہی ہے۔

 اویس ادیب انصاری (ادبی شخصیت)

ہم اور آپ پاکستان کے قیام کے بعد 2023ء میں سب سے زیادہ مہنگائی کے دور سے گزر رہے ہیں۔ اشیائے ضرورت کی قیمتیں دوگنی سے زیادہ ہو چکی ہیں اور دوسری اشیاء جن کو ہم ضرورت کے تحت خریدتے تھے ہماری قوتِ خرید سے باہر ہو گئی ہیں، قربانی کا حصہ اس سال 22 ہزار تک پہنچ گیا ہے۔ اس لیے اس سال متوسط طبقے کی  اکثریت کو شاید قربانی سے محروم ہونا پڑے گا، کیونکہ اگر میاں بیوی کے دو حصے لیے جائیں تو 44 ہزار کی رقم کہاں سے لائی جائے۔ عید قرباں کی خوشیاں قربانی سے مشروط ہیں اور یہ دینی فریضہ بھی ہے اور مہنگائی کا جو طوفان آیا ہوا ہے، وہ بہت سے لوگوں کو اس خوشی سے محروم رکھ سکتی ہے۔

 یاسر سعید صدیقی (شاعر)

بڑھتی ہوئی مہنگائی نے سفید پوش لوگوں کے لیے بڑی مشکلات کھڑی کر دی ہیں۔اور قربانی ایک فریضہ ہے جس میں عام آدمی کے لیے اب حصہ لینا بہت مشکل ہوگیا ہے۔ بہت سارے ایسے لوگ جو دونوں عیدوں میں الگ الگ کپڑے بنایا کرتے تھے اس سال مہنگائی کی وجہ سے شاید وہ کوئی پرانا جوڑا ہی پہنیں گے۔ کیوں کہ سنتِ ابراہیمی بھی تو ادا کرنا ہے۔ پہلے ایک زمانے میں جس رقم میں پوری گائے آجاتی تھی اب اس میں ایک حصہ آرہا ہے۔ بکرے کے دام آسمان تک چلے گئے۔ خوشیاں ذہنی سکون سے جڑی ہوتی ہیں، جب روزمرہ کے مسائل میں الجھے رہیں گے تو کہاں خوشیاں رہیں گی۔ ہم اپنی خوشیاں اپنے بچوں کو منتقل کر دیتے ہیں کہ چلو ہم خود کچھ نہیں کرتے، ان کے معاملات دیکھ لیتے ہیں۔ یقیناً مہنگائی نے عید کی خوشیوں کو متاثر کیا ہے۔

 ارم ضیاء (موٹیویشنل اسپیکر، ماہرِ تعلیم)

ہر مسلمان کی کوشش ہوتی ہے عید پر اللہ کی راہ میں قربانی کر کے اللہ کو راضی کرے۔ اس مہنگائی میں بہت سارے لوگ یہ سوچتے ہوں گے ہم کیا کریں؟ جو ماشاءاللہ صاحبِ حیثیت ہیں ان کے لیے تو کوئی مسئلہ ہی نہیں لیکن وہ متوسط طبقہ جو اکثر پائی پائی جوڑ کر سوچتا ہے کہ ایک بکرا یا چھوٹی گائے خرید لے، کیا کرے گا۔ مجھے یہ لگتا ہے کہ صاحب حیثیت افراد اگر بڑا جانور کر رہے ہیں تو ایک ایک حصہ اپنے لیے رکھ کر باقی زیادہ سکت نہ رکھنے والے غریب کو کہیں کہ اگر وہ قربانی کرنا چاہتے ہیں تو ایک حصہ لے لیں۔ اس سے یہ ہوگا کہ جس کی قربانی کی نیت ہے وہ ایک حصہ لے کر بھی اپنے رب کو راضی کرنے کی کوشش کرے گا۔ بقرعید میں عموماً لوگ جانور لے لیتے ہیں، کپڑے نہیں بناتے لیکن اس دفعہ کپڑے نہ بنانے کے باوجود بھی شاید جانور اور اس کی کٹائی بساط سے باہر ہے۔ ہم مہنگائی اگر ختم نہیں کر سکتے تو ان کے ساتھ تعاون تو کرسکتے ہیں جو اس مرتبہ مہنگے جانور ہونے کی وجہ سے قربانی نہیں کر رہے۔

 ادیب فاطمہ رضوی (معلمہ)

دراصل ہر دور میں مہنگائی کا رونا رہا ہے لیکن اس دفعہ زیادہ مہنگائی ہے۔ قربانی اسلامی فریضہ ہے۔ اس لیے مسلمان ضرور اس کا اہمتام کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس دفعہ شاید جو لوگ دو جانور کرتے تھے وہ ایک کریں۔ اور جو حصہ لیتے تھے وہ یہ بھی نہیں لے سکیں گے۔

 تشکیل احمد فاروقی (مدیر انگریزی رونامہ)

حال ہی میں شائع ہونے والی عالمی مالیاتی اداروں کی رپورٹس کے مطابق پاکستان جنوبی ایشیا میں افراطِ زر کے حوالے سے تمام ممالک کی فہرست میں اوّل نمبر پر آگیا ہے۔ ملکی معیشت کے زوال اور روپے کی بڑھتی ہوئی بے قدری میں سب سے زیادہ متوسط اور نچلے درجے سے تعلق رکھنے والے گھرانے متاثر ہوئے ہیں۔ گھریلو مصنوعات کی قیمتوں میں ازحد اضافے نے جہاں مختلف تہواروں کی خوشیوں کو گہنا دیا ہے وہاں لوگوں سے عیدالاضحی پر قربانی کے من پسند جانوروں کی خریداری کی خوشی بھی چھین لی ہے۔ 

 ہما رضا (خاتونِ خانہ)

مہنگائی کے باعث بہت ساری چیزوں کو زندگی سے نکال کر گزارہ کرنا پڑ رہا ہے۔ یہ بات جہاں تھوڑی تکلیف دہ ہے وہاں انسان کو قناعت کا بھولا بسرا سبق بھی یاد دلا رہی ہے۔ بہت عرصے پہلے پڑھی جانے والی کہانی سے یہ سبق حاصل کیا تھا کہ جو ہے جیسا ہے اسی میں بہتری کے لیے کوشش کرنی چاہیے۔ عیدِ قرباں پر بھی کوشش یہی کرنی چاہیے کہ جیسے سب کے لیے مہنگائی ہے اور بہت سے گھرانوں میں گوشت کی قیمت زیادہ ہونے کی وجہ سے استعمال کم ہو گیا ہے تو قربانی کے گوشت کی تقسیم میں ان کا زیادہ خیال کریں۔ اس بار صرف غریبوں کا حصہ نہ رکھیں بلکہ اپنے خاندان اور احباب میں جو سفید پوش طبقہ ہے اس کو بھی اپنی قربانی میں شریک کریں۔ لگتا یہی ہے کہ مہنگائی کے باعث اس مرتبہ متوسط طبقہ بھی قربانی کا جانور خریدنے یا گائے میں حصّہ لینے سے محروم ہوگا۔

 سید تقی حیدر (سینئر سیلز آفیسر)

بدقسمتی سے موجودہ منظر نامے اور پاکستان میں وبائی صورتحال میں ہم بحران کا شکار ہیں اور اس کے اثرات عید الاضحی پر بھی پڑے ہیں۔ مہنگائی دنیا کی ہر چیز کی طرح عید کی خوشی کو بھی متاثر کررہی ہے۔ لیکن اس کے باوجود عید قرباں کا دینی فریضہ انجام دینے کے لیے ہم جذباتی ہوتے ہیں۔ اس وقت مہنگائی کے شدید طوفان میں عید قرباں آئی ہے اور متوسط طبقہ اس کی وجہ سے بہت تکلیف میں ہے، اور حکومت ہی کو کوئی تدبیر کرنی چاہیے۔

 سمیرا احمر (بیوٹیشن)

ویسے تو مہنگائی ہماری روزمرہ کی زندگی پر مستقل اثر انداز ہوتی ہے مگر سب سے زیادہ متوسط اور غریب طبقہ عید الفطر اور عید الاضحی کے موقع پر متاثر ہوتا ہے۔ کچھ عرصے پہلے تک تو لوگ قربانی کا فریضہ کسی نہ کسی طرح ادا کر لیا کرتے تھے لیکن اب اوسط آمدنی والے اور تنخواہ دار لوگ اس فرض کو ادا کرنے کی خوشی سے محروم ہوتے نظر آرہے ہیں۔

 ہمایوں سلیم (ایڈمن آفیسر)

بڑھتی ہوئی مہنگائی ہم سب پر اثر انداز ہو رہی ہے اور کیوں نہ ہو ہم متوسط گھرانوں سے تعلق رکھنے والے لوگ ہیں۔ عموماً ہمیں ایسا لگتا ہے کہ پورا کا پورا بوجھ ہم پر ہی آگیا ہے اور اس مہنگائی کا اثر دوسری خوشیوں کی طرح عیدِ قرباں پر بھی پڑا ہے۔ کبھی عید الاضحی سے ہفتوں پہلے جانور خرید لیے جاتے تھے اور جو لوگ اس وقت بھی جانور خریدنے کی سکت نہیں‌ رکھتے تھے تو ان کے بچے دوسروں کی گائے، بکرے ٹہلا رہے ہوتے تھے اور خوش ہوتے تھے، لیکن آج مہنگائی نے سب کو پریشان کردیا ہے۔ آج مدارس میں لوگ ایک یا دو حصے لے کر قربانی کا فرض پورا کررہے ہیں‌ اور اکثر لوگ اس مرتبہ یہ بھی نہیں کر سکیں گے۔

 آمنہ حماد (مدیر ڈائجسٹ)

مسلمان عیدِ قرباں جوش و خروش سے منا کر عظیم قربانی کی یاد تازہ کرتے ہیں لیکن آج مہنگائی نے سب کے ہوش اُڑا دیے ہیں۔ کچھ عرصے پہلے تک بھی سب بقر عید پر جانور کی خریداری کے ساتھ ساتھ ان کو سجانے اور کھلانے پلانے کا سامان خریدتے تھے اور بچوں کا جوش و خروش دیکھنے کے لائق ہوتا تھا لیکن اب کہیں ایسا نظر نہیں آتا اس کی اصل وجہ مہنگائی ہے۔ اس مہنگائی میں لوگوں کی اپنی ضروریات پوری کرنا مشکل ہورہا ہے تو پھر بقرعید کی تیاریاں بہت مشکل ہیں، ظاہر ہے اپنی آمدنی کے مطابق ہی سارے کام ہوں گے تو عید کی وہ خوشیاں جو قربانی کے جانور کے حوالے سے تھیں اس سے متاثر ہورہی ہیں۔

 

 ملک محمد اسمٰعیل ٹیپو(طالبعلم، بہاؤ الدین زکریہ یونیورسٹی)

اس سال مہنگائی حد سے زیادہ ہے اور متوسط طبقہ اس کی زد میں ہے۔ ایسے میں جانور کی قربانی کیسے کی جائے؟شکر الحمد للہ مجھے قربانی کا مسئلہ نہیں۔ہمارے جانور اپنے ہوتے ہیں۔ملک میں مہنگائی کا طوفان آیا ہواہے اور میں چاہتا تھاکہ وہ لوگ اس سال بھی قربانی کریں جو پہلے گائے یا بکر اخریدلیتے تھے، اور اگر کسی وجہ سے جانور نہیں لے پاتے تھے تو حصہ ضرور ڈالتے تھے،مگر اس مرتبہ وہ مشکل میں ہیں۔اس لیے میں نے مویشیوں کے دام کم کیے تاکہ جو لوگ مجھ تک پہنچ سکیں وہ جانورلے کر ہی جائیں۔ اللہ کرے مہنگائی کا طوفان تھم جائے اور سب کو سنتِ ابراہیمی ادا کرنے کی خوشی نصیب ہو(آمین)

 اسد علی چوہدری (آر جے)

بڑھتی ہوئی مہنگائی نے فرائض کی ادائیگی بھی مشکل کر دی ہے۔ جہاں چند سال قبل لوگ پورا جانور قربان کرنے کی استطاعت رکھتے تھے ان کے لیے آج صرف دو تین حصے لینا ہی ناممکن ہو رہا ہے۔ ایک حصے کی قیمت بھی تنخواہ دار طبقے کے لیے نکالنا مشکل ہورہا ہے۔ اس مرتبہ مہنگائی کی وجہ سے عیدِ قرباں کی خوشیاں بھی متاثر ہو رہی ہیں۔

قارئین!

بلا شبہ عیدِ قرباں کی خوشیاں قربانی سے مشروط ہوتی ہیں۔ قربانی کے جانوروں کی خریداری کی گہما گہمی ہی الگ ہوتی ہے لیکن اس مرتبہ بڑوں کو شکو ہ ہے کہ

کس قدر مہنگائی ہے بازار میں

مبتلا ہیں ہم بڑے آزار میں

تو بچے بھی افسردہ افسردہ کہتے پھرتے ہیں کہ

کر رہے ہیں لوگ تو بکرے حلال

ہم بنے بیٹھے ہیں تصویرِ ملال

بجا کہ قربانی ہر صاحبِ استطاعت پر واجب ہے۔ لیکن تنخواہ دار کے لیے قربانی کرنا مشکل ہو گیا ہے۔ ایسے میں عیدِ قرباں کی خوشیاں متاثر ہونا حیرت انگیز امر تو نہیں۔

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں