برسات میںدل کے آزار زیادہ تنگ کرتے ہیںیا بلدیاتی محکموں کی ناقص کارکردگی؟
معروف فن کاروں اور شخصیات سے شائستہ زریں کا سوال
جوشؔ ملیح آبادی نے کہا تھا
دل کی چوٹوں نے کبھی چین سے رہنے نہ دیا
جب چلی سرد ہوا میں نے تجھے یاد کیا
گویا سرد ہوا اور دل کے آزار میں خاص نسبت ہے۔ موسمِ باراں میں چلنے والی ٹھنڈی ہوائیں دل کے آنگن میں مہکتی یادوں اور مچلتے ہوئے ارمانوں کے لیے بھی مہمیز کا کام کرتی ہیں۔ ان ارمانوں اور کچھ آزار یا عذابوں کی کیا ہی بات ہے۔ بارش کی چند بوندیں بچپن میں پہنچا دیتی ہیں۔ زمانۂ طالب علمی کی شوخیاں ستانے لگتی ہیں، اور لبوں پر اکثر کوئی گیت بھی مچلنے لگتا ہے۔
برکھا برسے چھت پر میں تیرے سپنے دیکھوں!
اور رہی بات بیاہی بیٹیوں کی تو اِدھرآسمان پر کالی گھٹا چھائی اُدھر بابل کے انگنا کی برسات اور گئے دنوں کی باتیں اور یادیں ان کے درِ دل پر دستک دینے لگتی ہیں۔
برستی بارش میں محض ماضی کی یادیں ہی اپنے حصار میں نہیں لیتیں بلکہ لمحۂ موجود میں بارش کی پُرلطف ساعتوں کو مزید خوش گوار بنانے کے لیے دل کے قریں ہستی سے ملاقات کی آرزو بھی ستاتی ہے۔ لیکن یہ ستم ظریفی ہی کہیں گے کہ ان سرور بخش لمحات کو مختلف محکموں کی ناقص کارکردگی لے ڈوبتی ہے۔ بجلی غائب، فون بند، سڑکوں کے اطراف پڑی گندگی اور کوڑے کے ڈھیر سے اٹھتا تعفن گیلی مٹی کی خوشبو پر حاوی ہونے لگتا ہے اور بارش کی لطافت کثافت میں بدلنے لگتی ہے۔ تب نہ صرف شدید الجھن اور بیزاری محسوس ہوتی ہے بلکہ ارمانوں پر اوس بھی پڑنے لگتی ہے۔ اس صورتحال میں دل کے عذاب مزید بڑھ جاتے ہیں کیونکہ صورتحال کچھ یوں ہوتی ہے کہ
کیسے کروں رابطہ اُس سے رستہ کوئی بحال نہیں…
اور کبھی بے بسی کا یہ عالم ہوتا ہے
آنا جانا ہے بند بارش میں
کیا سنائیں عجب کہانی ہے
لیکن اس برستی بارش میں جو دل کے عذابوں کے ہاتھوں تنگ ہو، بالک ہٹ جسے ستائے تو اس کی خفگی اور شکوہ ایک ہی رٹ لگائے ہے۔
جو آنا چاہو ہزار رستے نہ آنا چاہو توعذر لاکھوں
مزاج برہم، طویل رستہ، خراب موسم، برستی بارش
گویا محکمہ جاتی نا اہلی ہمارے ارمانوں، یادوں اور دل کے عذابوں پر نمک چھڑک کر ان میں مزید اضافہ کر دیتی ہے۔ ادھر چند برسوں سے برسات کی تباہ کاریاں دیکھتے ہوئے خیال آیا کہ بارش میں دل کے آزار اور عذاب زیادہ تنگ کرتے ہیں یا حکومتی اداروں اور بلدیہ کی ناقص کارکردگی کے نتیجے میں آنے والے عذاب؟ اس پر چند مشہور و معروف شخصیات سے رابطہ کرکے اُن کی رائے معلوم کی۔ آپ بھی پڑھیے۔
بشریٰ انصاری (آرٹسٹ)
مجھے بارشیں اداس کر دیتی ہیں اور اس موسم میں مجھے دل کے عذاب زیادہ تنگ کرتے ہیں۔بچپن میں بارش جتنی خوشی دیتی تھی اب اتنا ہی افسردہ اور دکھی کر دیتی ہے۔شاید کسی حادثے یا واقعہ نے کسی بارش میں مجھے ڈپریسڈ کیا ہو جس کا اثر آج بھی قائم ہے۔ آج بھی میں بارش کے زمانے میں اپنے اندر خاصی ویرانی اور خاموشی محسوس کرتی ہوں۔
حمیرا اطہر (سینئر صحافی، ادیب)
الحمدُ للہ میرے دل میں بچپن میں بارشوں کے حوالے سے کوئی یاد عذاب بن کر نہیں آئی۔ بہت خوبصورت یادیں ہیں۔ بارش ہوتے ہی ہم سب بھائی بہن ان میں تایا زاد بھی شامل ہوتے تھے بارش میں نہاتے تھے۔ ہم لوگ بارش کا پانی برتنوں میں جمع کر کے رکھتے تھے بعد میں اسے پیتے تھے۔ بڑے مزے کا لگتا تھا۔ بالٹیوں میں بارش کا پانی بھر کر رکھتے اس سے بعد میں نہاتے تھے اس کا مزہ ہی کچھ اور ہوتا تھا۔ ہاتھوں میں چھوٹی چھوٹی شیشیاں لیے بیر بہوٹی کی تلاش میں نکل جاتے تھے اور انھیں چن چن کر شیشیوں میں جمع کرتے تھے۔ یہ مقابلہ ہوتا تھا کہ کس نے کتنی زیادہ بیر بہوٹیاں جمع کیں۔سرخ مخملیں بیر بہوٹیاں اب تو دیکھنے کو بھی نہیں ملتیں۔چونکہ بارش کے ساتھ ہی آموں کا موسم ہوتا تھا تو آم کھا کر اس کی گٹھلیاں زمین میں دبادیتے تھے ایک دو دن بعد وہ پھوٹ جاتی تھیں تو اس کے اندر کی گری نکال کر اس سے باجا بجاتے اور گھر بھر میں سب بہن بھائیوں کے کانوں کے قریب بجا کر خوب شور مچاتے تھے گھر میں طرح طرح کے پکوان بنتے جن میں بیسنی روٹی،آلو یا دال قیمے کے پراٹھے سرِ فہرست ہوتے تھے۔ سوجی کا حلوہ بھی بنتا تھا۔ اب آج کی کیا بات کریں آج تو بارانِ رحمت صحیح معنوں میں بارانِ زحمت ہوجاتا ہے۔ ہماری نئی نسل تو بارش کے لطف سے محروم ہی ہے تو اگر عذاب کی بات کریں بچپن تو کبھی بھی عذاب نہیں ہوتا۔ آج کل جو پورے ملک کے بلدیاتی اداروں کا حال ہے تو بارشوں میں کراچی کا تو خاص طور سے نہ ہی پوچھو۔ بارشوں کی وجہ سے ہی تو موسم کچھ بہتر ہو جاتا ہے اور تھوڑی سی تازگی آجاتی ہے۔ بارش تو بارانِ رحمت ہوتی ہے۔ یہ تو ہماری بد بختی ہے کہ ہمارے ادارے ایسے ہیں کہ جو اس رحمت کو زحمت بنا دیتے ہیں۔
غزالہ یاسمین (سابق اناؤنسر، پی۔آر۔ او پاکستان ٹیلیویژن، کراچی مرکز)
بارش میں دل کے عذابوں سے کہیں زیادہ سرکاری محکموں کی خراب کارکردگی کے عذاب بہت ستاتے ہیں، سڑکیں متاثر ہوتی ہیں، آمدورفت میں خلل پیدا ہوتا ہے، جگہ جگہ مہینوں بارش کا پانی کھڑا رہتا ہے جس کی وجہ سے مکھیوں اور مچھروں کی افزائش میں اضافہ ہوتا ہے۔ یہ مختلف بیماریوں کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہے۔ بجلی کئی کئی گھنٹوں کے لیے غائب ہو جاتی ہے۔ یہ صورتحال صرف سرکاری محکموں کی غفلت کا نتیجہ ہے۔دل کے عذاب اور سرکاری محکموں کے عذاب میں فرق صرف اتنا ہے کہ دل کے آزار اور پرانی یادیں ایک عجیب لطف دیتی ہیں اور فطرت کا حسن دوبالا ہو جاتا ہے جب کہ مختلف محکموں کی خراب کارکردگی کی وجہ سے مشکلات بڑھ جاتی ہیں۔
تاجدار عادل (پروڈیوسر، شاعر)
یہ تو ظاہر ہے کہ جس وقت بارش میں سڑکوں پر پانی کھڑا ہواور ٹوٹی ہوئی سڑکوں پر گڑھوں میں جمع پانی اچھل کر راہ گیروں کے کپڑے خراب کرتا ہو، ان کا حلیہ بگاڑ دیتا ہو، گاڑی والوں کو گاڑی چلاتے ہوئے یہ احساس ہوتا ہو کہ وہ ان پہاڑوں پر گاڑی چلا رہے ہیں جہاں ہر قدم پر ابھری ہوئی چٹانیں اور کھائیاں ہیں تو دل سے جو آہ نکلتی ہے وہ ان لفظوں میں ڈھل جاتی ہے جو شریف لوگ تنہائی میں بھی نہیں بولتے اور یہ تو کہنے کی بات ہی نہیں کہ بجلی، پانی اور بلدیاتی محکموں کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے ہم پر عذاب ہی آجاتا ہے۔
فریدہ اشفاق (قلم کار)
بارش اور بارش کے ساتھ جڑے وہ حسین تصورات، خوبصورت یادیں اور یہ دلوں کے عذاب؟ کیا کچھ یاد دلادیا آپ نے! ہمارے پسندیدہ مصنف ابنِ صفی مرحوم نے کہیں لکھا تھا کہ ”یہ بادل کبھی سرخوشی اور سرشاری لایا کرتے تھے لیکن اب گیس ٹروبل اوربیزاری لے کر آتے ہیں۔“ یہ تو خیر ابنِ صفی کے عذاب ٹھہرے اور اپنا تو اب مدتوں سے یہ عالم ہے کہ کیا کہیے…کیا نہ کہیے۔ بقول انشاء اللہ خان انشاؔء
نہ چھیڑ اے نکہتِ بادِ بہاری راہ لگ اپنی
تجھے اٹکھیلیاں سوجھی ہیں ہم بیزار بیٹھے ہیں
محکمہ جاتی ناقص کارکردگیوں نے دل کے عذاب تو پتہ نہیں کس نہاں خانۂ دل میں پھینک دیے کہ اب آسمان پر چھائی گھٹائیں دیکھ کر سب سے پہلا خیال یہی آتا ہے، ایمرجنسی لائٹ چارج ہے یا نہیں۔ موم بتیاں ختم تو نہیں ہو گئیں؟ اگر بارش برس گئی تو جو لوگ گھر سے باہر ہیں بخیر وعافیت گھر پہنچ بھی پائیں گے؟ اس اندھیر نگری چوپٹ راج میں یہ عذاب جس طرح تنگ کرتے ہیں وہ دل ہی جانتا ہے جس پر گزر گئی۔ اور یوں بھی دل کے عذاب اپنی ذات تک محدود رہتے ہیں اور کسی خوبصورت تخلیق یا تحریر کا سبب بن جاتے ہیں، لیکن اب محکمہ جاتی نااہلیوں نے بارش کو جس طرح رُسوا اور بے وقعت کیا ہے اس کے بعد تو لوگ بارش نہ ہونے کی دعائیں مانگتے ہیں۔ خواب و خیال ہوئے وہ دن جب دل رم جھم رم جھم پڑے پھوار کی دھن پر رقص کناں ہوتے تھے۔
سیفی حسن (اداکار، ہدایت کار)
بارش میں مختلف محکموں کی بری کارکردگی کے نتیجے میں جو عذاب نازل ہوتے ہیں وہ دل کے عذابوں کے مقابلے میں بہت بڑے ہیں… بہت بڑے! تو ظاہر ہے دِق بھی وہی زیادہ کرتے ہیں۔
شبینہ افتخار (براڈ کاسٹر)
ایک زمانہ تھا جب میں کہتی تھی بارش میں دل کے عذاب دائمی اور محکموں کے عذاب وقتی ہوتے ہیں لیکن اب صورتحال تبدیل ہو چکی ہے۔ محکموں کے عذاب دل کے عذابوں پر سبقت لے گئے ہیں۔ محکمہ جاتی کمزوریاں اتنی زیادہ ہیں کہ بارش سے لطف اندوز ہونے ہی نہیں دیتیں۔ جب بارش میں گھروں میں نالوں کا پانی داخل ہونے لگے، گلی کوچوں میں گٹر ابل رہے ہوں، تعفن سے سانس لینا دوبھر ہو ایسے میں دل کے آزار پسِ پشت چلے جاتے ہیں۔
حماد صدیق (اداکار)
اپنے بچپن میں سب دوستوں کے ساتھ میں گلی میں یا اپنے محلّے کی مرکزی سڑک پر جھوم جھوم کر آسمان سے برستے ہوئے پانی کا مزہ لیتا تھا، ہم دوست ایک دوسرے کے پیچھے بھاگتے تھے اور چھوٹی چھوٹی شرارتیں بھی کرتے تھے۔ جب گھر لوٹتے تو ڈانٹ بھی سنتے، فوراً سَر پونچھنے اور گیلے کپڑے بدلنے کا حکم ملتا تھا اور ہم اس پر عمل کرتے تھے۔ اس طرح کی خوب صورت یادیں اکثر بارشوں میں تازہ ہوجاتی ہیں، لیکن ایسی کوئی یاد نہیں جو بارش کے موسم میں دل میں چبھتی ہو، بس کبھی یہ سوچ کر دل بوجھل ضرور ہوجاتا ہے کہ بچپن اور نوعمری کی وہ فرصتیں، وہ بے فکری کے دن اب نہیں لوٹ سکیں گے۔ دوسری بات یہ کہ ہم بھی اب بڑے ہوگئے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ کراچی میں بارشوں کے بعد لوگوں کو کیا مشکلات پیش آتی ہیں۔ ہم بھی ان مسائل کا سامنا کرتے ہیں، اور سرکاری اداروں اور بلدیہ کی نااہلی کی وجہ سے بارش ہمارے لیے عذاب سے کم ثابت نہیں ہوتی۔ میں، بس دعا کرتا ہوں کہ گھر سے روزی روٹی کے لیے نکلنے والا کوئی بھی شخص بارش کے دوران کسی سڑک پر نظر نہ آنے والے گڑھے، کھلے منہ کے گٹر میں نہ جا پڑے، کسی کو بجلی کی ٹوٹی ہوئی تاروں میں دوڑتی بجلی اپنا شکار بن بنا لے۔ بارشیں کتنی ہی تیز ہوں اگر ہماری حکومت انفرااسٹرکچر کو بہتر بنائے، ندی نالوں کی صفائی بروقت کرے، اور بلدیاتی ادارے اپنا کام ایمان داری سے کریں تو جانی یا مالی نقصان بہت، بہت کم ہو سکتا ہے۔
شازیہ انوار (صحافی)
مجھ پر تو دونوں ہی عذاب اترتے ہیں، دل کے عذاب اور یہ عذاب حساس طبع ہونے کی وجہ ہم تک آتے ہیں۔ بارش کا پہلا قطرہ ماں کی یاد دلاتا ہے جو ایسی صورتحال میں بجائے موسم کا لطف اُٹھانے کے بچوں کو موسم کا پورا مزہ پہنچانے کی خاطر کڑاہی چڑھا بیٹھتی تھیں۔ دوسرا قطرہ محبت کے ان دنوں کی چھت پر گرتا ہے جب شادی کے اوّلین دنوں میں بادل چھاتے ہی سہانے موسم کی رٹ کے ساتھ موٹرسائیکل باہر نکل آتی تھی، معاشی معاملات کمزور مگر دل کے معاملات نہایت مضبوط تھے۔ اسی طرح ہر قطرے کے ساتھ خوبصورت اور دردناک دونوں طرح کے عذاب وارد ہوتے ہیں، لیکن اللہ کا شکر ادا کر کے آگے بڑھ جاتے ہیں۔ رہی بات دوسرے عذاب کی تو وہ نہ ہی پوچھیں، ملازمت پیشہ ہونے کی وجہ سے موسم کیسا بھی ہو گھر سے باہر نکلنا ہی پڑتا ہے۔ بارش نہ ہو تو موسم کی وجہ سے پریشانی رہتی ہے اور ہو جائے تو سڑکوں کی صورتحال کسی عذاب سے کم نہیں ہوتی، میں نے بارش کی وجہ سے سات گھنٹے بھی سڑک پر گزارے ہیں جہاں گاڑی بند ہونے اور پیٹرول ختم ہونے کے خدشات بھی لاحق ہوئے لیکن رہے نام اللہ کا اور پھر وقت گزر ہی جاتا ہے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ جو صورتحال آج سے 20 سال پہلے تھی آج بھی معاملات اس سے کچھ مختلف نہیں ہیں۔ ہم کراچی والے آج بھی بارش سے محض اس لئے خوفزدہ نظر آتے ہیں کہ سڑکوں پر کھڑے پانی سے گزرنا محال ہوگا۔ مختلف محکوں کی ناقص کارکردگی کا ڈھول پیٹنے کی ضرورت ہی نہیں۔ سب کچھ سامنے ہی ہے۔ مون سون کا موسم ہو یا پھر بے موسم کی بارش، لطف اٹھانے کی حسرت دل میں ہی رہ جاتی ہے۔ اب تو صورتحال کچھ یوں ہے کہ ”بڑے“ گھروں میں بھی پانی بھر جاتا ہے، گلی محلوں میں پانی کھڑا ہونا تو عام سی بات ہوگئی ہے۔ تو جناب عذاب در عذاب ہے یہ موسم، لیکن ہم اللہ کی اس رحمت سے بھی مایوس نہیں، ہم نہیں تو ہماری نئی نسل ہی اس موسم کا لطف اٹھائے گی۔
دلشاد نسیم ( ناول نگار، ڈرامہ نویس)
کیا پوچھ لیا آپ نے بارش میں دل کے عذاب زیادہ تنگ کرتے ہیں یا…. سچ تو یہ ہے کہ بارش بہت رومینٹک لگتی تھی۔ کیوں…؟ اس کی سمجھ نہیں آسکتی لیکن لگتی تھی۔ بارش سے جُڑی بہت سی پیاری یادیں بھی میرے جیون کا اثاثہ ہیں، جیسے امی جی کا بارش میں میٹھے پورے بنانا، پکوڑے بنانا۔ ہم سب بہن بھائیوں کا پانی کی بوندوں سے کھیلنا، بارش کے گیت خاص طور پر اے ابرِ کرم آج اتنا برس اتنا برس گنگنانا۔ کچھ بڑے ہوئے تو پتہ چلا کہ ماں تو اس بارش میں زحمت میں آجاتی ہے۔ گھر میں ہم اتنا کیچڑ کرتے تھے، گیلے کپڑے۔ گھر میں کافی دن تک سیلن کی عجب سی مہک محسوس ہوتی۔ پھر بارش سے ہم کچھ دور ہو گئے۔ مزید شعور جاگا دیکھا اور محسوس کیا کہ ہم تو گھر کے لیے پریشان ہو رہے تھے ادھر تو سارا ملک جل تھل ہو جاتا ہے۔ گلیاں نالے تو خیر اپنی جگہ دیہات پر یہ بارش عذاب بن کر اترتی ہے۔ کہاں کے میٹھے پورے کہاں کے پکوڑے؟ اُن کا تو آٹا ہی گیلا ہو جاتا ہے۔ گٹر بھر جاتے ہیں، کئی حاثات ہو جاتے ہیں۔ بجلی کے مسائل کا تو کیا ہی کہوں؟ اب بارش ہوتی ہے تو بچّو ں کو دیکھتی ہوں دعا کرتی ہوں ان کا برسات سے رومانس سلامت رہے اور جن مسائل کی وجہ سے ہماری عمروں میں آکے لوگ ”اَن رومینٹک“ ہو جاتے ہیں وہ انھیں پیش نہ آئیں۔سڑکوں پر پانی نہ کھڑا رہے۔ بارش کی پہلی بوند کے ساتھ بجلی نہ جایا کرے۔ آمین۔
سلمان نوید (پی ایچ ڈی اسکالر، آرجے)
بارش یوں تو ایک خوش گوار احساس دلاتی ہے اور کسی اپنے سے جڑی یادیں بھی تازہ کردیتی ہے۔ لیکن بارش کا تمام لطف اس وقت ختم ہو جاتا ہے جب بجلی و گیس، نکاسیٔ آب کا نظام، ندی نالوں کا نظام درہم برہم ہوتا ہوا نظر آتا ہے۔ بدقسمتی سے محکموں کی خراب کارکردگی اور غفلت کے ذمہ دار بھی ہم خود ہیں کیونکہ ہم بر وقت شکایات درج کروانے اور متعلقہ افسران تک اپنی بات پہنچانے کے بجائے ایک دوسرے کے منتظر رہتے ہیں کہ کوئی اور شکایت درج کروا دے گا۔ ہمیں چاہیے کہ ہم ایک اچھے شہری کا ثبوت دیتے ہوئے شکایات بروقت درج کروائیں، جب بھی اور جہاں بھی کوئی مسئلہ اس موسم میں دیکھیں اس کی نشان دہی کریں اور ناقص کارکردگی سے متعلق ضروری معلومات اداروں کے ذمہ دار وں کو فراہم کریں۔
قارئین!
آسمان سے دھرتی پر ابر و باد کی صورت
ایک سکون اترتا ہے بارشوں کے موسم میں
چار سُو مہک پھیلے رنگ رنگ پھولوں کی
ہر شجر نکھرتا ہے بارشوں کے موسم میں
بلاشبہ بارش اہلِ زمین کے لیے آسمانی تحفہ ہے، لیکن ذرا سی دیر کی بارش میں شکستہ سڑکیں اور کھلے مین ہول خوشیوں ہی کے نہیں انسانی جان کے بھی قاتل بن جائیں، بارش کا نکھار دلدل کے بگاڑ میں تبدیل ہو جائے، گیلی مٹی کی سوندھی خوشبو کی لطافت کیچڑ کی کثافت میں ڈھل جائے، تو یہی خیال آتا ہے کہ کیا ہی اچھا ہو کہ متعلقہ محکمے برسات سے قبل ہی ایسے اقدامات کر لیں کہ یہ بارش رحمت ہی رہے زحمت نہ بنے۔