The news is by your side.

کراچی بھی شائقینِ کرکٹ کا شہرہے، پھرنظراندازکیوں؟

پاکستان نے دہشت گردی کی جنگ میں سب سے زیادہ قربانیاں دی ہیں چاہے وہ کوئی بھی شعبہ ہو دہشت گردی کے سبب ہی پاکستان کے کھیل کے میدان ویران ہوگئے۔ پاکستان کے غیرمعمولی حالات کی وجہ سے بین الاقوامی کھلاڑی اور ٹیمیں ویسے ہی پاکستان میں کھیلنے سے کترا رہی تھی اسی دوران 2009 میں جب سری لنکا نے پاکستان کا دورہ کیا تو دوسرے ٹیسٹ میچ کے دوران لاہور میں 3 مارچ کو دہشت گردوں نے سری لنکن ٹیم کی بس پر حملہ کرکے بین الاقوامی کھلاڑیوں اور بین الاقوامی ٹیموں کو کھلاجواز پیش کردیا جس کے بعد پاکستان میں کرکٹ کے میدانوں میں تالے لگ گئے اور اس کے بعد پی سی بی کا کوئی بھی ذمہ دارسیکیورٹی کے حوالے سے انٹرنیشنل بورڈزکو یقین نہیں دلاپایا اور پھر پاکستان کی ہوم سیریز متحدہ عرب امارات میں ہونا شروع ہوگئی پاکستان کی ہوم سیریز کے دوسرے ملک منتقل ہونے کی وجہ سے پاکستان کے شائقین کو بہت مایوسی ہوئی مگران کا جذبہ کبھی کم نہیں ہوا.پاکستان میں دہشت گردوں کے خلاف جاری پاک آرمی کا کامیاب آپریشن ضرب عضب سے پاکستان کے حالات میں کافی بہتری آئی ہے جس کے بعد دیگر ممالک نے بھی عندیہ دیا کہ وہ پاکستان میں سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں.

پاکستان میں کرکٹ کی بحالی کے منتظر عوام جہاں اپنے میدان میں اپنے کھلاڑیوں کو کھیلتا دیکھنا چاہتے ہیں وہیں عوام کھلاڑیوں سے بہتر کھیل کی توقع رکھتے ہیں.مگر کھلاڑیوں کا کھیل اسی بنیاد پر بہتر ہوسکتا ہے جب کھلاڑیوں کی سیلیکشن میرٹ کی بنیاد پر کی جائے مگر ایسا ممکن ہی نہیں کیونکہ جب پاکستان کرکٹ بورڈ کے عہدیدار خود میرٹ پر نہیں آئے تو کیا انکے فیصلے میرٹ پرہوسکتے ہیں۔ پاکستان میں سلیکشن کا یہ عالم ہے کہ جس کھلاڑی کی ٹیم میں کوئی جگہ نہ ہو یا کوئی کھلاڑی سالوں سے ٹیم سے باہر ہو اسے کپتان بنا کر ٹیم کا مستقل حصہ بنادیا جاتا ہے واہ واہ پی سی بی حکام۔

پاکستان کی کرکٹ کی بہتری کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کو پنجاب کرکٹ کے بجائے پاکستان کرکٹ بورڈ کے طور پرچلایا جائے لسانی بنیاد پرفیصلے نہ کئے جائیں۔ کرکٹ ورلڈ کپ 2015 کے دوران جس طرح سرفراز احمد کے ساتھ زیادتی کی گئی اس کے بعد حقیقت واضح ہوگئی کہ کراچی سے تعلق رکھنے والوں کے ساتھ پاکستان کرکٹ ٹیم میں کس طرح تعصب کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ کرکٹ شائقین کے دلوں میں کسی کے لیے کوئی لسانی نفرت نہیں مگرسیاسی بنیادوں پراہم عہدوں پر فائز متعصب عہدیداران کے متعصب فیصلوں سے شعبوں کا نقصان ہورہا ہے اور ایسے فیصلوں سے زیادتی کا نشانہ بننے والوں میں احساس محرومی بڑھتی ہے۔ ابھی کراچی کے شہریوں نے سرفراز احمد کے ساتھ اورکراچی سے تعلق رکھنے والے کھلاڑیوں کے ساتھ ہونے والی زیادتی بھلائی نہیں تھی کہ ایک بار پھر کراچی میں رہنے والے کرکٹ شائقین کو زیادتی کانشانہ بنایا جارہا ہے۔

مئی کے آخری ہفتے میں زمبابوبے کرکٹ ٹیم کا دورہ متوقع ہے جس میں زمبابوبے اورپاکستان کے درمیان ہونے والے میچز پنجاب کے شہر لاہور میں کھیلے جائیں گے اورزمبابوبے کے دورہ کے لیے کراچی جیسے گلوبل سٹی کو نظر انداز کرکے کیا پیغام دیا جارہا ہے، یہ سمجھ سے بالاتر ہے حالانکہ جس حادثے کے بعد پاکستان میں کرکٹ کے دروازے بند ہوے وہ حادثہ لاہور میں ہوا تھا اسکے باوجود اسی شہر کو کراچی پر فوقیت دی جارہی ہے.کراچی کے شہریوں کا بھی حق ہے کہ وہ بھی قومی و بین الاقوامی کھلاڑیوں کے کھیل سے لطف اندوز ہوں۔

پاکستان کے وزیراعظم نوازشریف صاحب کو چاہیے کہ وہ پاکستان کے وزیراعظم بنیں صرف لاہور کے نہیں. رواں ماہ جب چینی صدر کی پاکستان آمد ہوئی تو ہم نے دیکھا کہ چینی صدراورانکی اہلیہ کے استقبال کرنے کے لیے وزیراعظم پاکستان نواز شریف کے ساتھ انکی بیگم، انکی صاحبزادی، وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف اور ان کے دیگر رفقاء موجود تھے اس وقت بھی دیگر صوبوں کو نظر انداز کیا گیا تھا اسی طرح وزیراعظم کی فرمائش پراعلیٰ عہدے پرفائزہونے والوں نے اپنے بڑوں کے نقشِ قدم پرچلتے ہوئے وہی کام کیا اور کراچی و سندھ کو دورہ زمبابوبے کے لیے نظرانداز کردیا جو کراچی و سندھ کے لیے باعث تشویش ہے. ایسے حالات میں جب پاکستان کے تمام صوبوں میں حقوق سے محروم عوام اپنے حق کے لیے سر اٹھارہے ہیں ایسے میں پاکستان کرکٹ بورڈ کے حکام کی جانب سے اس طرح سے کراچی دشمنی جیسا اقدام سمجھ سے بالاتر ہے کرکٹ ایک کھیل ہے اور اس کی کوئی سرحد نہیں ہوتی، پاکستان کی سلیکشن کمیٹی اور ٹیم مینیجمینٹ سندھی، مہاجر، پنجابی، پشتون، بلوچی اور سرایکی کھلاڑیوں کو لسانی نظر سے نہیں بلکہ پاکستانی کی نظر سے دیکھیں کسی کھلاڑی کو کسی اورقومیت کا سمجھنے کے بجائے پاکستانی سمجھا جائے اور کسی شہر کو اسلئے بھی نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے کہ وہ مہاجروں کا شہر ہے یا کسی اورکا۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ لوگ اپنے آپ کو مہاجر یا کوئی اور قومیت کا کہنا چھوڑ دیں تو اسکے لیے ہمارے حکام کو پاکستان کے تمام شعبوں اور اداروں سے متعصبانہ سوچ کے حامل لوگوں کو بے نقاب کرکے باہر کرنا ہوگا ورنہ چند متعصب لوگوں کے اقدام اور رویوں کی وجہ سے پاکستان کو نقصان اٹھانا پڑسکتا ہے۔

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں