The news is by your side.

صولت مرزا: تختۂ دارسے آگے کی بات

‘‘جسٹ فارملیٹی ۔۔ کچھ نہیں ہوگا’’

تین بارموت کی سزا پانے والے مجرم کے منہ سے نکلے ان الفاظ نےکمرۂ عدالت میں موجود تمام افراد کو ششدر کردیا تھا، قریب کھڑے پولیس اہلکار نے توخوف کی ایک لہراپنی ہڈیوں میں محسوس بھی کرلی۔

قلم ٹوٹ چکا تھا صولت مرزا نہیں ٹوٹا تھا، سرجھکا ئے گہری سوچ میں ڈوبا، صولت علی خان جیل کی گاڑی میں بیٹھا اورجیل روانہ ہو گیا، کرم فرمائوں کی طاقت سے مطمئن صولت شاید یہ بھول گیا تھا کہ ہرعروج کا زوال ہے۔

یہ کراچی کی سیاست کے بدلتے دن تھے جب80 کی دہائی میں ملک بھرکی طرح کراچی میں بھی مذہبی اور نظریاتی ووٹ بینک ختم ہوکرقوم پرستی کی جانب مبذول ہورہا تھا اوراس کی کوکھ سے فاروق دادا، ریحان کانا، ذکی اللہ اورصولت مرزا جیسے باغی نوجوانوں نے بھی جنم لیا جو حقوق لڑ کر لینے اوراپنی شناخت کے لئے کسی حد تک بھی جانے کے لئے تیار تھے۔ وقت گزرتا گیا لیکن کراچی کی سیاسی تاریخ میں جوتشدد داخل ہوا تو اسے واپسی کا دروازہ نہیں ملا۔ اداروں نے گولیوں اورطاقت کے ذریعے اپنی رٹ کا مظاہرہ کرنے کی کوشش کی جس کے نتیجے میں نجانے کتنے ہی صولت جعلی یا حقیقی پولیس مقابلوں میں مارے گئے اورکتنے ہی صولت پابندِ سلال ہوئے کچھ تو ایسے ہیں جن کا کسی کومعلوم ہی نہیں کہ کہاں ہیں؟۔

اوراسی دوران صولت علی خان المعروف صولت مرزا جو کہ جیل میں اپنی اپیلوں کے سبب تختہ دارکی رسی کواپنی گردن سے اتارنے کے لئے بھر پور کوشش کر رہاتھا، کراچی کی سیاست میں موضوعِ بحث بن گیا ہرکوئی اس کی طاقت کے گُن گانے لگا۔ واقفانِ حال تو یہ بھی جانتے ہیں کہ کئی مسائل کے فوری حل کے لئے لوگ اس سے رجوع بھی کرنے لگے تھے۔

اس قدرطاقتورکہ جب سانحہ آرمی پبلک اسکول کے بعد پھانسیاں لگنا شروع ہوئیں توکراچی کے شہری یہ سو چتے تھے کہ اگرصولت مرزا کوپھانسی ہوگئی تو کیا ہوگا لیکن ان تمام خدشات کا خاتمہ اس وقت ہوا جب 11 مارچ کی صبح ایم کیوایم کے مرکزنائن زیرو پرچھاپہ پڑا اوراسی دن جب وقاص شاہ کے پراسرارقتل کی باز گشت فضا میں بلند ہورہی تھی تو ٹی وی چینلزصولت مرزا کے بلیک وارنٹ جاری ہونے کی بریکنگ چلا رہے تھے۔

19مارچ کا بلیک وارنٹ جاری تو ہوا لیکن کچھ نامعلوم افراد کےذریعےصولت کی ایک تہلکہ خیز ویڈیو سامنے آگئی اورپاؤں تلے زمین کھینچے جانے کی مہلت میں اضافہ ہوگیا۔ ویڈٰیو کیا تھی ایک پنڈورا باکس تھا جس میں ناصرف اس نے اپنے گناہوں کا اعتراف کیا بلکہ بہت سےاہم سیاسی شخصیات اورایم کیوایم کوبھی نشانہ بنایا گیا نتیجتاً پھانسی ایک دفعہ نہیں دوددفعہ مؤخرہوئی اس دوران ملزم کی جے آئی ٹی بھی بنی اس کی سفارشات بھی سامنے آئیں اوراس نے کچھ ایسے سوال جنم لئے جن کا جواب ملنا چاہئیے۔

صولت مرزا نے بغیرکسی ذاتی دشمنی کے قتل کیوں کیےاورکیا ان تمام قتل کا ذمہ داروہ تنہا تھا؟

وہ کون لوگ تھے جن کی مدد سے صولت کو جیل میں فون سمیت دیگر آسائش حاصل تھیں اورکیا ان کے خلاف کوئی کارروائی ہوئی؟

صرف صولت کوپھانسی دینامقصود تھی اوردیگرملزمان نہیں پکڑنا تھا توکیا ویڈیوبیان اورجے آئی ٹی کا مقصد صرف کسی کی سیاسی تذلیل تھا؟۔

یہ یقینا ایک تلخ حقیقت ہوگی کہ آج کے بعد کوئی دہشت گرد اورسیا سی کارکن مرتا مرجائے گا لیکن اسٹیبلشمنٹ اورریاست پراعتبارنہیں کرے گا کیوں کے آگے کھائی پیچھے کنواں۔ صولت ایک ٹیسٹ کیس تھا اوراس مقدمے نے ثابت کردیا کہ مرجاؤ لیکن کبھی اعتبارنہ کرنا۔

کال کوٹھری میں قید صولت یقینا یہ سوچ رہا ہوگا کہ اس کوبڑا دھوکہ کس نے دیا 17 سال قدم بقدم ساتھ چل کہ چھوڑنے والوں نے یا انھوں نے جو اسے آسرا دے کراس کواوراس کے خاندان کواپنوں اوران افراد سے جو اس سے ہمدردی رکھتے تھے ان میں اجنبی کرگئے؟، اورکیا ریاست اس کے خاندان کو اس غصے سے بچا پائے گی جوا س کے ویڈیو بیان کے بعد جنم لے رہا ہے؟۔

اب جبکہ صولت ریاست کی طے کردہ سزا سود سمیت بھگت چکا ہے تو مقتولین کے بین اور زخموں کو محسوس کرتے ہوئے بھی یہ سوچنے پرمجبور ہوں کہ ریاست کی وہ کون سی غلطیاں ہیں کہ صولت کومجرم جاننے کے باوجود بھی ایک بڑا طبقہ اس کا گرویدہ تھا، وہ ان کا ہیروتھا۔ دوران طالبِ علمی میں بھی میں ایسے کئی نوجوانوں کوجانتا تھا جواسے چی گواویرا سے کم اہمیت نہیں دیتے تھے۔

سیاسی، سماجی اورنفسیات کے علوم پرعبوررکھنے والوں کا کہنا ہے کہ صولت ریاست پاکستان کا نہ پہلا نوجوان تھا اورنہ آخری ہوگا کیوں کہ ہم سوگ منانے والی قوم بن گئے ہیں روگ کا خاتمہ کرنے کی ہم کوشش ہی نہیں کرتے اوروہ جنہیں محبت کے زریعے سدھارا جا سکتا ہے ہم انھیں نفرت سے سدھارنا چاہتے ہیں، اوررکھئیے نفرت مزید نفرت کوجنم دیتی ہے۔

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں