چائے کی چسکی کے ساتھ میں اورخان ڈھابے کے ہوٹل سے پکوڑے کھانے اور گپیں لگانے میں مصروف تھے کہ گاڑیوں کے ایک بڑے اسکواڈ میں پولیس اور رینجرز کی بھاری نفری سیاسی تنظیم کے رہنما کو لے کر عدالت پہنچ گئی۔ میں نے خان صاحب سے کہا کہ پہنچ گیا ہے مہمان چلو اندر چلتے ہیں ہاں یار یہ تو ہنستا ہے تو اس کو بھی رپورٹ کرنا پڑ جاتا ہے۔
ابے اس پرالزامات کیا کیا ہیں بھائی۔ جلدی بتا یار۔ میری یہ بیٹ کا بندہ نہیں ہے اور بہاری بھی نہیں ہے‘ ورنہ وہ آتا یہاں۔
بھائی رینجرز کہتی ہے کہ یہ ملزم بڑا خطرناک ہے‘ دہشت گردوں کے علاج کرتا تھا اور ان کی کان میں یہ تاکید بھی کرتا تھا کہ بیٹا جا کر زرا دو چار اورمار دو۔ بڑے افسر نے تو یہ بھی بتایا کہ اس حوالے سے کسی مذہب، فرقے یا جماعت کا امتیاز نہیں کرتا تھا۔۔سب کا علاج وہ بھی رعایت میں ۔ میں نے ہنستے ہوئے کہا۔اور ہاں اربوں روپے کی کرپشن کا بھی الزام ہے لیکن وہ اس عدالت میں نہیں۔
آف وائٹ شلوار قمیض اور اس کے اوپر واسکٹ اورہاتھ میں تسبحی دیکھ کر ہمارا دوست مسکرایااور بولا‘ ابے! یہ کیا حال بنایا اس نے ۔۔۔ابے کیا ہو گیا؟ میں مسکرایا اور بولا اب اس کا یہی حلیہ ہوتا ہے بھائی۔
اچھا پہلے ملاقاتیں کیسی ہوتیں تھیں؟۔ کیسی ہوتیں کیامطلب ایک تو صاحب ٹائم نہیں دیتے تھے اور ایک دفعہ ٹائم دیا تو صاحب کچھ اتنے برہم تھے کہ نظراٹھا کر دیکھنا بھی ان کو کچھ برا لگ رہاتھا لیکن خیر ہے سمیع ہم تو ہم ہیں ایسا سوال داغا کہ ہڑبڑا کر بولا۔ یہ کیا بول رہے ہیں آپ؟۔
ہاں میں جانتا ہوں تیرا۔۔۔۔۔پن اچھا یہ بتا پھر جس کام سے گیا تھا وہ ہوا؟۔ نہیں یار بہت نخرے تھے صاحب کے۔
آیار! بات کرتے ہیں۔
نہیں یار رہنے دے۔
اس وقت دن برے ہیں آہ نہ لگ جائے۔
ابے کچھ نہیں ہوتا ان کو کچھ نہیں ہوا تو ہمیں کیسے ہو کچھ ہو گا۔
اس کے بعد وہ بڑے بڑے قدم اور گردن ہلاتے ہوئے پہنچ گیا صاحب کے سر پر۔
ڈاکٹر صاحب خیر ہے یہ ہاتھوں میں تسبحیح اور سر پر ٹوپی۔
ڈاکٹر نے بھی میری توقعات کے عین مطابق جواب دیا ہاں اللہ سے لو لگا لی ہے سیاست ویاست کچھ نہیں‘ تم بھی لگالو بیٹا بس وہی کار ساز ہے اور آیت کریمہ پڑھو۔
پھرڈاکٹر صاحب نے بالکل ایک اچھے مولوی کی طرح یا گھر پرآنے والے قاری صاحب کی طرح شفقت سے ہم کو آیت کریمہ پڑھایا۔
ہم بولے بس ڈاکٹر صاحب! بس آپ کی پریشانی ختم ہو جائے گی اور باہر آکریہی خبر چلا دی۔ وقت گزر گیا۔
یہ آیت کریمہ کا اثر تھا کہ ڈاکٹر صاحب کی ماں کی دعائیں کہ پہلے ان کے پرانے دوستوں کو ان کی یاد آئی پھر ان کی ضمانت کی درخواستیں منظور ہونا شروع ہوئیں اب جب سیاسی تنظیم کےیہ رہنما رہا ہو رہے ہیں ۔تو سرکار کچھ بدلی بدلی نظر آتی ہے۔
اورسب کچھ پھر پہلے جیسا ہوتا دکھائی دے رہا ہے اب ڈاکٹر صاحب سیاست بھی کر رہے ہیں ان کا استقبال بھی ہورہا ہے، بھٹو کے نعرے وجن گے کے نعروں کی گونج میں ڈاکٹر صاحب وفاق اور چوہدری نثار جیسے طاقتور آدمی کو للکار بھی رہے ہیں۔
اب خان ملے گا تو بولوں گا کہ بھائی اب جب ملنے جاؤ تو ماضی کی طرح ٹائم لے کرجانا اور انتظار بھی کرنا۔ اگر کوئی ان صاحب کو ڈاکٹر عاصم سمجھ رہا ہے تو یہ اس کا مسئلہ ہے ہم اس کے ذمہ دار نہیں ہیں۔