The news is by your side.

پورے پاکستان میں ایکشن کی ضرورت ہے

پاکستان کو مجموعی طور پر اس وقت مشکل ترین حالات کا سامنا ہے اور پاکستان تاریخ کے اہم ترین دور سے گزر رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ حالات پرقابو پانے کے لیے افواجِ پاکستان بھرپورکام کررہی ہے شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کے خلاف جاری ضرب عضب آپریشن نے دہشت گردوں کی جڑیں ہلادی ہیں جہاں ایک طرف افواج پاکستان شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کے خلاف کاروائی میں مصروف ہے وہی دوسری طرف انتہا پسندی کو فروغ اور پڑھے لکھے نوجوانوں کو بہیکانے اور اکسانے کا کھلے عام کاروبار جاری ہے جس پر کوئی نظر ڈالنے کو تیار نہیں ہے پاکستان مسلمانوں کے بڑھتے ہوئے احساس محرومی کی بنیاد پر اور مذہبی آزادی کے لیے قیام عمل میں آیا تھا اس کا مقصد یہ نہیں کہ پاکستان کو انتہا پسندی کی آگ میں جھونک دیا جائے۔

پاکستان میں بڑھتی ہوئی مذہبی جنونیت اور مذہبی انتہا پسندی ریاستی ادارے ہی نہیں ہماری پوری پاکستانی عوام کے لیے بہت بڑا چیلنج ہے۔ کالعدم تنظیموں اوردیگر نام نہاد مذہبی ٹھیکیداروں نے مذہب کو کھلواڑبنا رکھا ہے جو باعث تشویش ہے۔ کالعدم تنظیموں کی بڑھتی ہوی دہشت گردی سے نہ صرف سندھ بلکہ پنجاب ، خیبرپختونخواہ ، کراچی سمیت پورے پاکستان کو خطرات لاحق ہیں۔ چند ماہ قبل کراچی میں صفورا چورنگی پر بس کو نشانہ بنایا گیا تھا جس میں متعدد افراد کو گولیوں سے بھون کر شہید کردیا گیا تھا بس میں سوار افراد کا تعلق اسماعیلی کمیونٹی سے تھا جب تحقیقات ہوئیں تو معلوم ہوا کہ اس بس پراٹیک کرنے والا اور اس سانحے کے پیچھے ایسے شخص کا تعلق ہے جو ایک تعلیمی انسٹیٹوٹ سے تعلق رکھتا تھا اور آئی بی اے کا طالب علم تھا مگر تعلیم کے ساتھ ساتھ وہ ایک ایسی تنظیم سے وابستہ تھا جو دہشت گردوں کو نہ صرف برین واشنگ کرتی ہے بلکہ پناہ بھی دیتی ہے۔ سانحہ صفورا کی تحقیقات اور تفتیش کے دوران پکڑے جانے والا سعد عزیز نامی شخص نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اپنے اعترافی بیان میں کہا کہ وہ پہلے جماعت اسلامی کی طلبہ تنظیم اور جماعت اسلامی  کا رکن تھا پھر اس نے القائدہ میں شمولیت کی اورپھر سانحہ صفورا سے قبل وہ داعش کے لیے کام کررہا تھا اور کراچی میں داعش کی ہونے والی وال چاکنگ میں بھی وہ ہی ملوث تھا۔

جناب یہاں ہمیں غور کرنا ہوگا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ ایک پڑھا لکھا طالب علم جو آئی بی اے کا اسٹوڈنٹ تھا وہ قاتل کیوں بنا اس کی برین واشنگ کن لوگوں نے کی ؟ جماعت اسلامی یا جمعیت کے دہشت گردوں سے روابط کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہم نے کتنی ہی بار دیکھا کہ وزیرستان میں امریکی ڈرون حملوں میں مرنے والوں میں اکثریت کا تعلق جماعت اسلامی سے رہا ہے جن کے لیے کتنی ہی بار جماعت اسلامی نے کھلے عام اعلان بھی کیا اور تو اور دہشت گردوں کے حق میں احتجاج بھی کرتے رہے ہیں گزشتہ چند ماہ قبل مشرف حملہ کیس میں پھانسی کی سزا پانے والے ڈاکٹر عثمان کی پھانسی سے پہلے کتنی ہی بار جماعت اسلامی نے ڈاکٹر عثمان کی رہائی کے لیے احتجاج کیا جو ریکارڈ پر ہے مگر افسوس دہشت گردوں کی سہولت کار نرسری آج بھی اپنے گندے اور گھناونے کاروبار میں مصروف ہے مگر کسی کی ان کے دفاتر پرنظر نہیں جو ہماری وفاقی و صوبائی حکومتوں کی کارگردگی پر سوالیہ نشان ہے ، یہ ہمارے میڈیا کے کردار پر بھی بہت بڑا سوالیہ نشان ہے کہ وہ ان باتوں کو اجاگر کیوں نہیں کرتا ،؟ سانحہ صفورا کے علاوہ انسانی حقوق کی تنظیم کی رکن اور انسانیت کے لیے کام کرنے والی سبین محمود کو بھی مذہبی انتہیا پسند نے ہی شہید کیا تھا ان سب حقائق کے منظر عام پر آنے کے باوجود جماعت اسلامی اور اسکی طلبہ تنظیم کی سرگرمیوں پر کوئی پابندی نہ لگانا سمجھ سے بالاتر ہے۔ جماعت اسلامی کے کردارپرسے پردہ اٹھ جانے کے بعد پاکستان کی اکثریت عوام نے انھیں اپنے ووٹ کی طاقت سے ہرالیکشن میں مسترد کرکے اپنا فیصلہ سنادیا ہے یہ ہی وجہ ہے کہ اب انکی سندھ میں کوی نمائندگی نہیں ،عوام تو سمجھ چکی متعلقہ ادارے اور حکام کب سمجھے گے ؟۔

پاکستان سے دہشت گردی کو جڑسے ختم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ طالبان درندہ صفت دہشت گردوں کو حمایت اور انکے موقف کی تائید کرنے والوں کو بھی لگام دی جائے ورنہ انکے حمایت یافتہ لوگ مزید ایسے اور طالبان پیدا کردیں گے آج جن کے خلاف لڑتے ہوے ہماری 70،000 ہزار سے زائد پاکستانی شہید ہوچکے ہیں اتنی بڑی قربانی سے بہتر ہے ان مٹھی بھر عناصر کے خلاف بھی کارروائی کی جائے جو کہ مذہب کی آڑ میں انتہا پسندی کو فروغ دے رہے ہیں۔ اگر اب بھی بروقت فیصلہ نہیں کریں گے تو ہمیں مزید سعد عزیز جیسے برین واش ہوئے دہشت گردوں کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے اس لیے اس بیماری کو مزید بڑھنے سے روکنے اور اس دہشتگردی کے کینسر کو جڑسے اکھاڑ پھیکنے کا ٹائم آچکا ہے عوام فیصلہ کرچکے ہیں اب حکام کو ایکشن لینے کی ضرورت ہے۔

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں