The news is by your side.

ایک ایسا داغ جو کبھی دھل نہیں سکتا

ہم نے کتنی ہی بار یہ محاورہ سنا ہے کہ” جوا کسی کا نہ ہوا ” اس محاورے کی اگر ہم ایک مثال ڈھونڈنے نکلے گے تو ہزاروں مل جائے گی اور کرکٹ جسے جینٹل مین گیم سمجھا جاتا تھا کبھی وہ اس محاورے کی حقیقت میں سرفہرست ہے۔ شرفاء کاکھیل کرکٹ اب سٹہ بازوں اور جواریوں کی وجہ سے اپنی حقیقی شکل سے دھندلا گیاہے اورتجارتی رخ اختیارکرگیا ہے۔

آج سے پانچ سال قبل 2010 میں پاکستان کے تین کھلاڑی اسپاٹ فکسنگ میں ملوث پاے گئے تھے جس کی بنا پر انھوں نے برطانیہ میں جیل بھی کاٹی تھی۔ دورہ انگلینڈ اگست 2010 کے آخری ہفتے میں پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان کھیلے جانے والے چوتھے ٹیسٹ میں دورہ انگلینڈ میں کپتان کے فرائض انجام دینے والے سلمان بٹ، نوجوان فاسٹ بالر محمد عامر، اور فاسٹ بالر محمد آصف کو اسپاٹ فکسنگ کرنے پر تینوں طرز کی انٹرنیشنل کرکٹ کھیلنے پرنہ صرف پابندی کا سامنا کرنا پڑا بلکہ اپنی اوراپنی پوری قوم کی شرمندگی کا باعث بنے جسے تاریخ میں کبھی بھلایا نہیں جاسکے گا۔

دورہ انگلینڈ 2010 کے چوتھے ٹیسٹ نے پاکستان کے تین بہترین کھلاڑیوں کے مستقبل کوتاریک کردیا اوردولت اور عیاشی کی لالچ نے وہ عزت و احترام ہی چھین لیا جس کو حاصل کرنا ہرانسان کے بس کی بات نہیں۔

پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان چوتھا ٹیسٹ 26اگست 2010 کو شروع ہوا اور میچ کے تیسرے روز 28اگست 2010کو برطانوی جریدے نیوز آف دی ورلڈ میں انکشاف ہوا کہ پاکستان کے تین کھلاڑی سلمان بٹ، محمد عامر،محمد آصف اور انکے ساتھ انکے ایجینٹ مظہر مجید اسپاٹ فکسنگ میں ملوث ہیں اور پیسے کے عوض محمد عامر نے نوبال کروای۔ اس انکشاف نے کرکٹ کی دنیا کو ہلا کررکھ دیا۔ پاکستان اسپاٹ فکسنگ کی زد میں آنے کے بعد چوتھا ٹیسٹ چوتھے روز ہی ہار گیا۔

انٹرنیشنل کرکٹ کونسل نے 2ستمبر 2010 کو تینوں کھلاڑیوں کو ضابطہ اخلاق ورزی پر عارضی طور پر معطلی کے احکامات جاری کردیے۔ چند ہفتے بعد تینوں کھلاڑیوں کی جانب سے معطلی کے خلاف درخواست دائر کی گیء جسے 31 اکتوبر کو یکسر مسترد کردیا گیا۔ اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل کے چند ماہ بعد آی سی سی کے ٹریبونل نے جرم ثابت ہونے پر سلمان بٹ کو دس سال کی مکمل پابندی کی سزا جس میں سے پانچ سال مشروط طور پر معطلی کی سزا سنای گء ، محمد آصف کو سات سال جس میں دو سال مشروط معطلی شامل تھی اور محمدعامر کو پانچ سال کی سزا سنائی گئی۔

محمد آصف نے 14 آپریل 2013 کو اسپاٹ فکسنگ کا اعتراف کیا جس کا وہ کیء عرصے تک انکار کرتے رہے تھے اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوے پوری قوم سے معاف کرنے کی درخواست کی۔ اسپاٹ فکسنگ کیس کے چند سال بعد 17 اپریل 2013 کوسلمان بٹ اور محمد آصف کھیل کی عالمی ثالثی عدالت میں پابندی کے خلاف کی گء اپیل کا مقدمہ ہار گئے۔ آی سی سی نے 29 جنوری 2015 میں اپنے ضابطے اخلاق میں ترمیم کرتے ہوے عامر کو ڈومیسٹک کرکٹ کی سطح پر کھیلنے کی اجازت دے دی۔ پڑھنے والوں کے لیے عرض ہیکہ اسپاٹ فکسنگ کیس میں محمد عامر نے شروع میں ہی غلطی اور جرم کا اعتراف کرلیا جسکی بنیاد پر انکے ساتھ تھوڑا نرمی برتی گئی تھی۔

کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے پانچ سال بعد اسپاٹ فکسنگ کے مرکزی کردار سلمان بٹ نے 18 جون 2015 کو اپنی غلطی اور اپنے جرم کا اعتراف کر ہی لیا اور پوری قوم سے معافی کی درخواست کردی۔
آی سی سی نے 19اگست 2015 کو اسپاٹ فکسنگ میں ملوث پاکستان کے تینوں کھلاڑیوں سلمان بٹ، محمد عامر ،اور محمد آصف پر سے پابندی اٹھانے کا اعلان کرتے ہوے کہا کہ تینوں کھلاڑی 2ستمبر 2015 کے بعد ہرطرز کی کرکٹ کھیل سکتے ہیں۔

کرکٹ میں جوا یا سٹہ بازی ابھی کچھ سالوں سے نہیں بلکہ پچھلے دو دہائی سے چل رہاہے جس میں نیشنل ہی نہیں انٹرنیشنل کھلاڑی بھی شامل ہیں۔ ماضی کے کھلاڑی اس شکنجے میں پھنسنے کی وجہ سے کے سال تک سزا بھگت چکے ہیں جیسے پاکستان کے سلیم ملک ، ساوتھ آفریقہ کے ڈرل کلینن ، ہینسی کرونے ، ویسٹ انڈیز کے مارلن سامِؤلز ، بھارت کے آجے جدیجہ ، اظہر الدین ،وغیرہ شامل ہیں۔ میچ فکسنگ یا اسپاٹ فکسنگ کے حوالے سے سابق کھلاڑیوں کا کہنا ہے کہ میچ فکسنگ کی لعنت کرکٹ میں اپنی جگہ بنا چکی ہے جس کے لیے اب کوئی واضح حکمت عملی بنانے کا وقت آگیاہے۔ اسپاٹ فکسنگ میں ملوث سلمان بٹ ، محمد آصف ، اورمحمد عامر اپنی سزا مکمل کرنے کے بعد ہر طرز کی کرکٹ کھیل سکتے ہیں مگر پابندی تو ختم ہوگئی لیکن تینوں کھلاڑیوں کو بے حد تنقید کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔

سابق پاکستان کے کپتان رمیز راجہ نے چند ہفتے قبل اپنا ایک مضمون لکھا جس میں انھوں نے محمد عامر کو بھر پور تنقید کرتے ہوے لکھا ہے کہ محمد عامر کی کرکٹ کی واپسی پر کرکٹ ٹیم ایک بار پھر وائرس یعنی اسپاٹ فکسنگ کے خطرات سے دوچار ہوسکتا ہے۔ رمیزراجہ نے اپنے اس مضمون میں ایک سوال اٹھایا کہ “کیا ان کھلاڑیوں کو اس وائرس کی زد میں لانا چاہیے جنھوں نے سخت محنت کرکے اپنے لیے راستہ بنایا اور اب وہ ایک ایسے کھلاڑیوں کے لیے جگہ چھوڑ دیں جن کا کردار اب بھی مشکوک ہے۔۔ بالکل درست سوال اٹھایا رمیز راجہ صاحب نے یہ بالکل ان کھلاڑیوں کے ساتھ زیادتی ہوگی جو پچھلے پانچ سالوں سے پاکستان ٹیم کے لیے محنت کررہے ہیں ، پاکستان کے سابق ٹیسٹ فاسٹ بالر عاقب جاوید کا کہنا ہے کہ محمد عامر ایک دھوکہ باز ہے میں ایسے کرپٹ شخص کی حمایت نہیں کروں گا ، ٹھیک اسی طرح کا ردعمل پاکستان میں کرکٹ کے شائقین میں بھی دیکھا جارہا ہے مگر بورڈ کی سطح پر دو لابیز کام کررہی ہیں ایک لابی چاہتی ہے کہ ان تینوں کھلاڑیوں کو ڈومیسٹک میں کاردگی دکھانے پر قومی ٹیم میں شامل کرلیا جاے اور ایک لابی فی الحال انھیں کسی صورت ٹیم میں جگہ دینے کو تیار نہیں۔ بہت سارے حلقے سلمان بٹ اور محمد آصف کے لیے سخت رویہ اپنارہے ہیں اور محمد عامر کیلیے عام معافی کامطالبہ کررہے ہیں جو محمد آصف اور سلمان بٹ کے ساتھ زیادتی ہے تینوں کے جرم ایک ہی ہیں تو انکے ساتھ برتاو بھی ایک جیسا ہونا چاہیے اورتینوں کھلاڑیوں کے ساتھ سختی سے ہی نمٹنا چاہیے تاکہ دیگر کھلاڑیوں کے زہن میں کبھی اس طرح کی غلطی کرنے کی سوچ ہی پیدانہ ہو۔

پاکستان کے تینوں کھلاڑیوں سلمان بٹ ، محمد آصف ، اور محمد عامر اپنے کیے پرشرمندگی کا اظہارکرچکے ہیں اور قوم سے معافی کی بھی درخواست کرچکے ہیں مگر یہ بہت مشکل کام ہے کیونکہ اب یہ تینوں کھلاڑی کرکٹ کے کھیل میں بہت پیچھے رہ گئے ہیں اورپاکستان اور پاکستان کی کرکٹ اب آگے نکل چکی ہے اور میرے مطابق پاکستان کرکٹ ٹیم کو اب مستقبل کی طرف دیکھنا چاہیے ماضی کی طرف نہیں اور اب یہ تینوں کھلاڑی پاکستان کا ماضی بن چکے ہیں اور ایسا کلنگ ان پر لگ چکا ہے اورایسا داغ لگ چکا ہے جوکبھی مٹانے سے نہیں مٹ سکتا۔

پاکستان کرکٹ کو اسپاٹ فکسنگ کے وائرس سے بچانے کے لیے اسپاٹ فکسنگ کی سزا کاٹنے والوں سے دور رکھنے کی ضرورت ہے انھیں بس ڈومیسٹک تک محدود رکھ کر اپنے اپنی زندگی گزارنے دی جائے انھیں قومی ٹیم میں شامل کرنے سے نئے نوجوان کھلاڑیوں کی حوصلہ شکنی ہوگی جو کئی سالوں کی محنت سے قومی ٹیم میں شامل ہونے کے اہل ہوئے ہیں لہٰذا وقت کا تقاضا ہے کہ پا کستان کرکٹ بورڈ سلمان بٹ ،محمد آصف ، اور محمد عامر کے لیے اپنے سفارشات کے ڈبے کو بند کرکے رکھ دے تاکہ اسپاٹ فکسنگ کے وائرس سے بھی بچاجاسکے اور نئے کھلاڑیوں کا اعتماد بھی بحال رہے۔ محمد آصف ،سلمان بٹ اور محمد عامر اسپاٹ فکسنگ کے جرم میں معطلی اور جرمانے کی سزاتوکاٹ چکے مگر اب میں سمجھتا ہوں ان کھلاڑیوں کے حوالے سے سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان میں کرکٹ کے شائقین ایسے کھلاڑیوں کو کھیلتا دیکھنا پسند کرینگے جنھوں نے قوم کومایوس کرکے اپنے ضمیر کا سودا کیا۔

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں