The news is by your side.

پاکستان میں منشیات کا بڑھتا ہوا رحجان

پاکستان میں منشیات کے استعمال کا رجحان بہت تیزی سے ہرسال بڑھتا جارہا ہے جس سے متاثر ہونے والوں میں سب زیادہ تعداد نوجوانوں کی ہے خاص طور سے وہ نوجوان جو تعلیمی درسگاہوں سے وابستہ ہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارے ڈرگز اینڈ کرائمز کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں 6.7 ملین افراد ڈرگز کا استعمال کرتے ہیں جن میں سے 4 ملین افراد ڈرگز کے عادی ہیں۔ پاکستان میں ڈرگزکی روک تھام کی ذمہ داری حکومتی ایجنسی ’’اینٹی نارکوٹکس فورس‘‘ پرعائد ہوتی ہے مگر آج تک ہم نے اس ادارے کی کوئی خاطر خواہ کارکردگی نہیں دیکھی اسی وجہ سے پاکستان کے ہرگلی کوچے میں بآسانی ڈرگز کی خرید و فروخت بلاخوف جاری ہے۔

اعداد و شمار کے مطابق 9 ملین سے زائد افراد منشیات کے عادی ہیں جن میں سے دو ملین افراد کی تعداد انکی ہے جنکی عمریں 15 سے 25 کے درمیان ہیں۔ کالج یا یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے ہردس بچوں میں سے 1 منشیات کا عادی ہے۔ سگریٹ نوشی ، تمباکو نوشی ، گٹکا مین پوری ، شراب کا استعمال اور دیگر چیزوں کا شمار منشیات میں ہوتا ہے۔ اسلام میں بھی ہر وہ نشہ حرام ہے جس سے انسان بہک جاتا ہو یا ہوش کھو دیتا ہو۔ سگریٹ نوشی ، تمباکو نوشی یا دیگر منشیات کا استعمال کچھ لوگ اپنے ذہنی دباو کو کم کرنے کے لیے کرتے ہیں تو کچھ افراد ایک دوسرے پرسبقت لیجانے کے لیے اسکا استعمال کرتے ہیں ، کچھ اسے اپنا اسٹیٹس سمجھتے ہیں اورکچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ منشیات کے استعمال کے بناء زندہ نہیں رہ سکتے تو وہ عادی کہلاتے ہیں۔

منشیات کے استعمال سے نہ صرف انسان سوچنے کی صلاحیت کم ہوجاتی ہے بلکہ انسان کی صحت اوراس کے کردارپربھی منفی اثرات پڑتے ہیں جس سے دنیا اور آخرت دونوں ہی خراب ہوجاتے ہیں۔ تحقیق کے مطابق 60 فیصد سے زائد وہ نوجوان ڈرگز کے عادی ہیں جو کہ پڑھے لکھے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ ایک انتہائی تشویشناک بات ہے کہ ہمارا پڑھا لکھا طبقہ جانے انجانے میں فیشن کے دھوکے میں اپنی ہی قبرکا انتظام خود کررہا ہے۔ سگریٹ نوشی ، شیشہ یا دیگر منشیات کے استعمال سے کالج یا یونیورسٹی میں پڑھنے والے طلباء کی پڑھائی پرگہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ طلباء میں منشیات کے استعمال کے رحجان کی اہم وجہ اس کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے والے لوگ یا ارد گرد کا ماحول، منشیات کے استعمال کو اپنا اسٹیٹس سمجھنا، کالجز اور یونیورسٹیز کی جانب سے سختی نہ برتنا ، اور سب سے اہم وجہ ان کے والدین کا اپنے بچوں کے اخراجات کے حوالے سے لاعلم ہونا ہے ، جہاں تعلیمی ادارے اتنی بھاری بھرکم فیسیں وصول کرتے ہیں انھیں چاہیے کہ وہ اپنی ان فرائض کو بھی دھیان میں رکھیں کہ جب تک کوئی بھی طالب علم آپکے ادارے کا اسٹوڈنٹ ہے تب تک اسکی تربیت کے ذمہ دار آپ ہی ہیں۔

نوجوانوں میں سگریٹ نوشی ، شیشہ، اوردیگر منشیات کی برائیوں کی روک تھام کے لیے تعلیمی درسگاہوں کے سربراہوں ، والدین اور سماجی تنظیموں کو مل کراقدامات اٹھانے چاہیے۔ منشیات کے رجحان کو کم کرنے یا ختم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اسکولز ، کالجز اور یونیورسٹیز کے طلباء و طالبات کو منشیات کے حوالے سے باضابطہ طور پرگائیڈلائن دی جاے اور اس کے نقصانات سے آگاہ کیاجائے تاکہ نوجوان طلباء کو تمباکو نوشی یا سگریٹ، شیشہ اوردیگرمنشیات کے استعمال سے قبل ان کے اثرات کا علم ہو اور وہ اپنا مستقبل تاریک ہونے سے بچا سکیں۔

جہاں نوجوانوں کو معاشرتی برائیوں سے دوررکھنا والدین اور اساتذہ کی ذمہ داری ہے وہی سب سے بڑی ذمہ داری حکومت وقت کی ہے جو منشیات جیسی معاشرتی برائیوں کی خرید وفروخت پرپابندی کے ساتھ ساتھ منشیات کی پاکستان میں اسمگلنگ کو مکمل بند کرنے پراپنی سنجیدگی کا اظہار کرے۔ اس میں کوئی شک نہیں پاکستان کے حکمران منشیات کے کھلے عام فروخت اور اسکی اسمگلنگ میں برابر کے شریک ہیں لیکن حکمرانوں کو اپنی جیب گرم کرنے بجائے پاکستان کے مستقبل کے معماراورنادان نوجوانوں کا بھی سوچنا چاہیے جو اپنے شوق میں اپنی زندگی کے حسین لمحات کو کم کررہے ہیں۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں