اگر کوئی مجھ سے یہ کہے کہ اسے بالکل غصہ نہیں آتا تو میں اس کی بات پر ہرگز یقین نہیں کروں گا کیونکہ غصہ ایک فطری عمل ہے اور ایک بات جو میں اکثر دوستوں سے کہتا ہوں کہ کوئی بھی چیز اچھی یا بری نہیں ہوتی بلکہ اس کا استعمال اچھا یا برا ہوتا ہے۔ قدرت نے کوئی بھی چیز بیکار پیدا نہیں کی ہے غصہ آپ کی طاقت ہے اسے بیکار ضائع نہ کریں بلکہ اس کا اچھا استعمال کریں۔
غصے کی طاقت کو استعمال کرنے کیلئے سب سے پہلے آپ کو غصہ پر قابو پانا ہوگا جبھی آپ غصہ پر سواری کرسکیں گے۔غصہ پر قابو پانے کیلئے آپ نے اس سے قبل بے شمار مضامین پڑھے ہوں گے۔ میں یہاں صرف دو باتوں کی طرف توجہ دلانا ضروری سمجھوں گا۔ سب سے پہلے تو جب کسی بات پرغصہ آئے تو خاموشی اختیار کریں۔ ممکن ہو سکے تو پانی پی لیں کیونکہ غصے سے انسان کے جسم میں خون کی گردش تیز ہوجاتی ہے اور پانی آگ کی طرح آپ کو بھی ٹھنڈا کردے گالیکن یاد رہے کہ ہم نے اس آگ کو استعمال کرنا ہے۔ اس لیے اسے مکمل طور پر ٹھنڈا نہیں ہونے دینا بلکہ اس کی راکھ میں سے چنگاریوں کو زندہ رکھنا ہے تاکہ بوقت ضرورت اپنی مرضی کے مطابق آگ کو استعمال کرسکیں۔ بھڑکتی ہوئی آگ کبھی بھی فائدہ نہیں دے سکتی جب تک ہم آگ کو قابو میں رکھ کر استعمال نہ کریں۔
اسلام میں ہمیں اس کی کئی بہترین مثالیں مل سکتی ہیں۔ یہاں میں صرف ایک مثال پیش کروں گا کہ پیارے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم صحابہ کرامؓ کے ساتھ حج کی نیت سے مکہ مکرمہ کا رخ کرتے ہیں لیکن انہیں حج کرنے سے روک دیا جاتا ہے۔ یہاں پرایک صلح نامہ حدیبیہ طے پاتا ہے جو کفارکی شرائط کے مطابق تھا صحابہ کرامؓ کو اس بات پر بے انتہا غصہ آتا ہے کہ ہم کفار سے دب کرکیوں معاہدہ کریں لیکن چونکہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کا حکم تھا اس لیے خاموش رہے۔ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم اس غصہ کو قابو پا کر واپسی کا حکم دیتے ہیں لیکن واپس جا کر جب دوبارہ لوٹتے ہیں تو فتح مکہ حاصل کرتے ہیں۔
میں نے اکثر کمزوروں کو غصہ کے وقت اپنے سے کئی گنا طاقتور کو زیرکرتے دیکھا ہے لیکن اس کے بعد اس کا انجام کیا ہوتا ہے وہ آپ بخوبی جانتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ اپنی غصہ کی طاقت کو فوراً استعمال کرکے ضائع نہ کریں بلکہ غصہ پر قابو پا کر اسے استعمال کریں۔غصہ کو دبا دیا جائے تو وہ ضد اورانا بن جاتا ہے۔ اگر یہ ضد اور انا کسی مثبت اور تعمیری کام کیلئے استعمال ہوتو اچھی ہوتی ہے لیکن اگر اس ضد اورانا کو تخریبی کام کیلئے استعمال کیا جانے لگے تو بری بن جاتی ہے۔ جس طرح لالچ بحیثیت خود ایک بری چیز ہے لیکن اگر علم کے راستے میں ہو تو انسان کی پیاس کبھی نہیں بجھتی اور وہ علم کا سمندر بن جاتا ہے۔ انسان کسی چیز پر قناعت نہیں کرتا یہی وجہ ہے کہ چاند تک پہنچ گیا ہےلیکن اگر یہی ہوس خونی بن جائے تو انسان کو جانور سے بھی بدتر بنا دیتی ہے۔
ہمارے ایک دوست جنہیں میں اپنا استاد بھی سمجھتا ہوں کہتے ہیں کہ صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے لیکن اگر یہی صبر زیادہ ہوجائے تو پھل گل سڑ جاتا ہے۔ اس کی ایک مثال میں آپ کے سامنے یوں پیش کروں گا کہ جاپان پر امریکہ نے دو ایٹم بم گرائے اور جس کے نتیجہ میں جاپانی قوم کو گھٹنے ٹیکنے پڑے۔ جاپانی قوم نے صبر سے کام لیا اور اسی غصہ کو اپنی قوم میں پروان چڑھایا اورآج جاپانی قوم ترقی کی بلندی کو چھو رہی ہے لیکن وہی بات کہ صبر زیادہ ہوجائے تو گل سڑ جاتا ہے۔ یہی بات جاپانی قوم پر صادق آتی ہے انہوں نے ترقی تو حاصل کرلی لیکن آج جاپانی قوم میں آپ کو امریکہ کے خلاف وہ نفرت ہرگز نہیں ملے گی جو ان کی پچھلی نسلوں میں تھی۔ آج جاپانی قوم امریکہ کے رنگ میں رنگی ہوئی نظرآتی ہے۔
فلسطین اوراسرائیلی طاقت کا کوئی مقابلہ نہیں لیکن اس کے باوجود فلسطینی پتھر کے ساتھ ٹینکوں کا مقابلہ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس کے جواب یہ ہے کہ اگر وہ ایسا نہ کریں تو شاید ان میں یہ چنگاری بھی بجھ جائے جو آگ بن سکتی ہے۔ یہ ان کی جدوجہد آزادی کو زندہ رکھے ہوئے ہے اورتاریخ میں قوموں پرعروج و زوال آتے ہی رہتے ہیں لیکن زندہ وہی رہتا ہے جس میں کچھ تحریک پائی جائے۔
میرے نزدیک جس میں غصہ نہیں اس میں غیرت نہیں۔ آپ کے وطن پر دشمن قوم حملہ کرے اور آپ کو غصہ نہ آئے، آپ کے والدین کو کوئی گالی دے اورآپ کو غصہ نہ آئے، کوئی آپ کے دین پرکیچڑ اچھالے اور آپ کو غصہ نہ آئے، غصہ تو آئے گا لیکن اسے پروان چڑھا کر اپنی طاقت میں اتنا اضافہ کریں کہ دشمن کو پھر کبھی ایسی جرات نہ ہوسکے۔ یاد رکھیں کہ جسمانی طاقت سے آپ کسی کو زیر کرسکتے ہیں لیکن اس کے غصے کی طاقت کو ختم نہیں کرسکتے اس لیے ہمیشہ دشمن کے دل کو فتح کرنے کی کوشش کریں۔ دل کے فتح ہوتے ہی دشمن خودبخود ختم ہوجائے گا۔ جس کی ایک بہترین مثال مکہ کی فتح ہے جس میں خون کا ایک قطرہ تک نہیں بہا اورآپ نے دشمن کو زیر کر لیا۔ آئیے ہم بھی اپنے غصے کو استعمال کرکے آج سے کسی دشمن کے دل کوزیرکرنے کی کوشش کریں کیونکہ دشمنی ختم ہوگئی تو دشمن خودبخود ختم ہوجائے گا۔