The news is by your side.

مچھروں کی حکومت

باوثوق ذرائع سے خبر ملی ہے کہ مچھروں کی تعداد میں بے حساب اضافہ ہو گیا ہے اوراب شہرمیں مچھروں نے بھاری اکثریت حاصل کرلی ہے۔ ان کے ناپاک ارادوں سے ہر خاص وعام واقف ہے لیکن پھربھی کسی کو جرات نہیں ہورہی کہ ان کے خلاف آپریشن کلین اپ کرکے ان کا قلع قمع کرسکے۔ شہر میں موجود گندگی کے ڈھیر ، گٹروں سے ابلتے چشمے ان کی بہترین پناہ گاہیں ثابت ہورہے ہیں جہاں یہ اپنی افزائش کرکے روز بروزاپنی قوت میں اضافہ کررہے ہیں۔ اگران کی بڑھتی ہوئی تعداد کو آج روکنے کی تدبیرنہیں کی گئی تو وہ دن دور نہیں جب شہرمیں مچھروں کا ہی راج ہوگا اورانسان ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملیں گے۔

مچھروں سے آئے روزمذاکرات کیے جاتے ہیں لیکن بات شوں شوں سے آگے نہیں بڑھ پاتی۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ چینی زبان بولتے ہیں اس لیے ان سے مذاکرات کیلئے چینیوں کی خدمات حاصل کی جائیں لیکن کچھ بزرگوں کا خیال ہے کہ مچھروں پر برطانیہ میں اچھی تحقیق ہورہی ہے اس لیے ان سے مدد حاصل کی جائے لیکن باجود کوششوں کے بات آگے نہیں بڑھ سکی۔ اب سمجھ میں نہیں آتا کہ مچھر ہماری بات نہیں سنتے یا ہم مچھروں کی نہیں سنتے۔

پہلے کے مچھروں میں اور موجودہ مچھروں کی جنریشن میں یہ فرق ہے کہ پہلے کے مچھر صرف رات میں کاٹتے تھے لیکن ینگ جنریشن دن دیکھتی ہے نہ رات۔ انسانوں کو دیکھ کرانہوں نے بھی چوبیس گھنٹے سروس شروع کررکھی ہے۔ کاش یہ مچھرانسانوں کو دیکھ کرہڑتال بھی شروع کردیتے تو کتنا اچھا دن یا رات گزرتی کہ آج ناغہ ہے۔ مچھروں کے کاٹنے پرشاید کسی کو بھی کوئی اعتراض نہ ہواگریہ مچھرکاٹنے کا کام علی الاعلان نہ کریں اور ہمارے کانوں میں بیں بیں نہ کریں۔ اب انہیں کیا پتا کہ بھینس کے آگے بین بجائیں تو شاید وہ سن بھی لے لیکن انسانوں پرکوئی اثرنہیں ہوتا۔

مچھروں کی آئے روزنئی نئی قسمیں دریافت ہورہی ہیں کوئی بھینگی ہے تو کوئی ڈینگی ہے۔   کوئی صاف پانی کا ہے تو کوئی گندے پانی کا ۔ اگران کی قسمیں اسی طرح روز روز دریافت ہوتی رہیں تو وہ دن دور نہیں جب ہم ہر مچھرکا الگ الگ نام رکھ دیں گے۔ مثلاً ڈینگی مچھر،کن کٹا مچھر، پرکٹا مچھر، دیسی مچھر، ولایتی مچھر، کالا مچھر، مچھرخان وغیرہ وغیرہ۔ ان کو کوئی بھی نام دے دیں بہرحال ان کی ذات پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ جن کی فطرت میں کاٹنا لکھا ہو وہ تو کاٹے بنا نہیں رہتے۔ مچھروں کی یہی بات ہمیں اچھی لگتی ہے کہ یہ اپنا کام بڑی ایمانداری سے بلاتفریق کرتے ہیں۔

مچھروں پر جس قدر تحقیق ہو رہی ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آنے والا مستقبل مچھروں کا ہی ہوگا۔اسی لیے ان کے نام پر کراچی میں ایک کالونی کا نام ’’مچھر کالونی‘‘ رکھ گیا ۔اب پتا نہیں یہ انسانوں کی کالونی ہے یا مچھر کی کالونی ہے۔ کراچی کی کالونی ملیرکو بھی مچھر نے خوب عزت بخشی ہے۔اب پتا نہیں ملیر میں رہنے والے مچھر نے ملیریا پیدا کیا تھا کہ ملیریا نے ملیرکو جنم دیا ہے۔ یہ تو تحقیق طلب بات ہے جس پر انسانوں نے تو شاید تحقیق نہیں کی لیکن مجھے یقین ہے مچھروں میں اس پر تحقیق ضرور ہورہی ہوگی۔

ہمیں یہ بات سمجھ میں آئے یا نہ آئے لیکن امریکی سائنسدانوں نے یہ بات سمجھ لی ہے کہ مستقبل مچھروں کا ہے اسی لیے انہوں نے مچھروں جیسے ڈرونز بنا نا شروع کر دیئے ہیں۔ امریکی سنڈی اورکتوں کے بعد اب امریکی مچھربھی مارکیٹ میں آنے والے ہیں۔ اس بات سے اندازہ ہوتا ہے کہ امریکی انسانوں پر کم ہی بھروسہ کرتے ہیں اسی لیے وہ سنڈی، کتے اور مچھروں کو استعمال کرتے ہیں۔ کیونکہ انسان دھوکہ دے جاتے ہیں وہ کہتے تو یہ ہیں کہ وہ ڈرتے ورتے کسی سے نہیں لیکن ایک معمولی مچھر سے بھی ڈرکرمچھر دانیوں میں پناہ لے لیتے ہیں۔

آج کل ڈینگی مچھر کے بڑے چرچے ہیں اور اس نے بڑی دہشت پھیلا رکھی ہے۔ یقیناًاس کا تعلق گوجرانوالہ کے ڈینگا سے ہوگا یا اس کی ڈینگیوں نے اس کو مشہور کیا ہوگا۔ پتا نہیں یہ مچھر ہمارے خون کے اتنے پیاسے کیوں ہو گئے ہیں جبکہ ہم ان نے ان کے آرام و سکون میں کبھی کوئی خلل نہیں ڈالا بلکہ ہمیشہ ان کے لیے اچھا ماحول رکھا ہے لیکن لگتا ہے انہوں نے سیاستدانوں کا خون چوس لیا ہے تبھی اب ان کا کسی طرح پیٹ نہیں بھرتا۔ اب انہیں کیا پتا کہ سیاستدان اورمچھر میں بہت فرق ہوتا ہے۔ سیاستدان کا خون چوس کرکوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ اب اس کی رگوں میں بھی سیاستدان کا خون دوڑ رہا ہے یا یوں کہہ لیں کہ سیاستدان کا خون پی کر کوئی سیاستدان نہیں بن سکتا۔

آج کل مچھروں کا یہ نعرے بڑے مقبول عام ہو رہا ہے اور ہر مچھر کی زبان زد عام پر سنا جاسکتا ہے۔

تم کتنے مچھر مارو گے۔۔۔ ہر گھر سے مچھر نکلے گا!!
کل بھی مچھر زندہ تھا۔۔۔ آج بھی مچھر زندہ ہے!!
مچھر تیرے جانثار۔۔۔بے شمار بے شمار!!
انسانوں کا جو یار ہے ۔۔۔ غدار ہے غدار ہے!!
گوانسان گو، یا پھرروانسان رو!!

اسی تناظر میں میری آپ سے بھی یہ درخواست ہے کہ مچھروں سے دشمنی کرنا چھوڑ دیں مچھروں کے مینڈیٹ کو دل سے تسلیم کرلیں کیونکہ آئندہ حکومت مچھروں کی ہی ہوگی۔ جس میں انصاف سب کے ساتھ ہوگا۔ کوئی بڑا چھوٹا نہیں ہوگا۔ کسی مچھر کے آنے پرسائرن نہیں بجایا جائے گا۔ سستا خون سب کو دستیاب ہوگا۔ جب چاہیں ایزی مچھرسرنچ کے ذریعے ڈرپ لگوائیں بغیرکسی اضافی چارجز کے۔ اس کے لیے کسی بھی مچھر فرنچائز پر بھی جانے کی ضرورت نہیں۔

کسی کو مچھروں کے بارے میں خوش فہمی کا شکار نہیں ہونا چاہیے کیونکہ جب مچھروں نے نمرود جیسوں کو نہیں چھوڑا اور اس کے ناک میں دم کرکے جان لے لی تھی تو وہ آج بھی یہ کام باآسانی کرسکتے ہیں ۔ اس لیے میں تو کہتا ہوں مچھروں کو مارنے کے بجائے مچھروں سے دوستی کرلیں اوران کے ساتھ امن و شانتی سے رہنا سیکھ لیں ورنہ پھر نہ کہنا کہ خبر نہ ہوئی!!

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں