The news is by your side.

پاکستان کرکٹ ٹیم کواچھے کپتان کی ضرورت ہے

دنیا کے دیگرممالک کی طرح پاکستان میں بھی کھیلوں میں کرکٹ ایک مقبول ترین کھیل ہے جسے بہت شوق سے دیکھا اورکھیلا جاتا ہے۔ پاکستان کرکٹ ٹیم اور پاکستانی شائقین کرکٹ کے لیے سال 2015 کا اختتام اورسال 2016 کا آغاز بہت مایوس کن رہا جس کی وجہ پاکستان ٹیم کی تسلسل سے جاری خراب پرفارمنس ہے۔ سال 2015 کے اختتام سے ایک ماہ قبل دبئی میں پاکستان اورانگلینڈ کے درمیان سیریز کھیلی گئی تھی، ٹیسٹ میچز کی سیریز پاکستان کے نام رہی اور اسکے بعد ایک روزہ میچز اور مختصر دورانیہ کی طرز کے میچ کی سیریز کھیلی گئی جس میں انگلینڈ نے پاکستان کو بری طرح شکست دیکر ٹی 20 اور ون ڈے سیریز اپنے نام کرلی تھی۔ سال 2015 کے اختتام کے بعد بھی پاکستان ٹیم کی شکست کا تسلسل آج بھی برقرار ہے۔ سال 2016 کے آغاز میں ماہ جنوری میں پاکستان نیوزی لینڈ کے دورے پر تھی جس میں پاکستان اور نیوزی لینڈ کے درمیان 3 ایک روزہ میچز اور 3 ٹی 20 میچز کھیلے گئے۔ نیوزی لینڈ کی سرزمین پر کھیلے جانے والے میچز میں بھی پاکستان کا کوئی کھلاڑی نمایاں کارگردگی نہ دکھا سکا۔ نیوزی لینڈ کے چھوٹے گراونڈز میں بھی پاکستانی بیٹسمین باونڈریز پر کیچ آوٹ ہوتے رہے ، 5 سال بعد انٹرنیشنل کرکٹ میں واپسی آنے والے محمد عامر بھی میچ ونر پرفارمنس نہ دے سکے۔ نیوزی لینڈ نے اپنے ہوم گراونڈذ میں پاکستان کو ایک روزہ میچز کی سیریز میں 2۔0اور 3ٹی 20 میچز کی سیریز میں 2۔1سے شکست دے کر دونوں فارمیٹس کی سیریز اپنے نام کرلیں۔ نیوزی لینڈ کے دورے پر پاکستان ٹیم نے مجموعی طور پر 5 میچز کھیلے ( بشمول ٹی 20, ون ڈے ) جس میں سے 4 نیوزی لینڈ جیتا اور ایک پاکستان اور ایک میچ بارش کے باعث منسوخ ہوا۔ پاکستان ٹیم میں دونوں فارمیٹس کے لیے الگ الگ کپتان ہیں مگر نتیجہ دونوں فارمیٹس میں ایک ہی تھا۔ پاکستان ٹیم کا اوپننگ پئیر ، مڈل آرڈر ، ٹاپ آرڈر ایک سوالیہ نشان بنتا جارہا ہے ، پاکستان کی خراب پرفارمنس اور مسلسل دو سیریز میں شکست پر کوئی زمہ داری لینے کو تیار نہیں ۔

مارچ 2016 میں پاکستان کرکٹ ٹیم کو ایشیا کپ ٹی 20 ، اور ورلڈ ٹی 20میں بہترین ٹیموں کا سامنا کرنا ہے مگر اس سے قبل دو ٹی 20 سیریز میں بری طرح شکست سے ہمارے ٹی 20 ٹیم ، ٹیم کے کپتان ، کوچ ، اور دیگر اسٹاف کی تیاری کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

پاکستان کرکٹ ٹیم اپنا معیار کھوتی جارہی ہے جس سے دنیا بھر میں پاکستان کرکٹ ٹیم کی ساکھ متاثر ہورہی ہے جس کا اندازہ ہمارے غیر زمہ دار کھلاڑیوں ، کپتان ، کوچ اور ٹیم مینجمنٹ کو ہو یا نہ ہو مگر پاکستان میں رہنے والے لاکھوں ، کروڑوں شائقین کرکٹ کو ضرور ہے۔ پاکستان ٹیم کے کوچ وقار یونس کو کوچ کے فرائض انجام دیتے ہوئے عرصہ گزرگیا مگر پاکستان ٹیم کی پرفارمنس میں آج بھی وہی خامیاں موجود ہیں جو گزشتہ کئی سالوں سی ہم دیکھتے آرہے ہیں۔ اوپننگ پئیر کی ناکامی ہو یا مڈل آرڈر اور ٹاپ آرڈر کی غیرزمہ دارانہ بیٹنگ نہ اس میں مصباح الحق بہتری لائے تھے اور نہ اب تک آفریدی اور اظہر علی لاسکے ہیں ۔ پاکستان کرکٹ ٹیم کوچ ، کپتان ، ٹیم سلیکشن کمیٹی اور پاکستان کرکٹ بورڈ کی زاتی پسند اور ناپسند کے بیچ میں پھنس کر رہ گئی ہے جس کے خمیازے کا اندازہ ہم موجودہ عالمی ٹی 20 رینکنگ سے لگاسکتے ہیں، پاکستان کرکٹ ٹیم انگلینڈ اورنیوزی لینڈ کے ہاتھوں شکست کھانے کے بعد ٹی 20 کی عالمی رینکنگ میں 7ویں پوزیشن پرہے۔

پاکستان کی نمائندگی کرنے کے لاکھوں روپے لینے والے کھلاڑیوں کو چاہیے کہ ان لوگوں کے جذبات اور امیدوں کا بھی خیال رکھا کریں جن کے ٹیکسوں کی بدولت انھیں ہزاروں / لاکھوں روپے ماہانہ ملتے ہیں۔سب کی نظریں رواں سال بھارت میں 2016 میں ہونے والے ورلڈ ٹی 20, اوربنگلہ دیش میں ہونے والے ٹی 20 ایشیا کپ 2016 پر مرکوز ہیں۔ پاکستان مسلسل 2 ٹی 20 سیریز میں شکست کا سامنا کرچکا ہے اور تمام زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں پاکستان ٹیم سے زیادہ تواقعات نہیں رکھنا چاہیے کیونکہ پاکستان ٹیم میں اس وقت ایسا کوئی کھلاڑی موجود نہیں جو تسلسل کے ساتھ اپنی فارم ثابت کرسکا ہو یا اپنی پرفارمنس برقرار رکھ سکا ہو۔ اگر ہم دیگر ٹیموں کے کھلاڑیوں کے تسلسل کے ساتھ اچھی پرفارمنس کی مثال لینا چاہیں تو وہ بھارتی کھلاڑی روہیت شرما اور ویرات کوہلی کی لیسکتے ہیں کہ کس طرح ان دو کھلاڑیوں نے اسٹریلوی میدانوں میں تواتر کے ساتھ پرفارم کیا اور 5 میچوں کی سیریز میں دونوں کھلاڑیوں نے دو، دو، سینچریاں اسکور کیں۔ اس کے اعلاوہ اسٹریلوی کپتان اسٹیو اسمتھ ، میکس ویل جیسے کھلاڑیوں کی اننگز دیکھ سکتے ہیں۔

پاکستان ہو یا کوئی اور ٹیم بنا کپتان کی پرفارمنس کے کچھ نہیں کرسکتی کیونکہ جہاں کپتان کی کوئی کارگردگی نہ ہو تو ایسے میں وہ دیگر کھلاڑیوں کو پرفارمنس بہتر کرنے کو کیسے کہہ سکتا ہے ؟ کسی بھی ٹیم کی کامیابی کا واحد راز اونرشپ ہے جو کپتان کی زمہ داری ہوتی ہے چاہے ٹیم جیتے یا ہارے۔ پاکستان ٹیم کو صرف اونرشپ کی ضرورت ہے اگر ٹیم ہارتی ہے تو یہ کپتان کو اون کرنا چاہیے زمہ داری لینا چاہیے کہ وہ میچ میں ٹیم کو بہتر طریقے سے لیڈ نہیں کرپایا جسکی وجہ سے شکست ہوئی ، اور اسی طرح فتح حاصل کرنے پر اسکا پورا کریڈٹ کپتان کو ہی دیا جاتا ہے اسے سراہا جاتا ہے کہ اس نے ٹیم کو میدان میں اچھے سے مینج کیا۔ پاکستان کے ٹی 20 فارمیٹ کے کپتان شاہد آفریدی کو ماضی میں ہونے والی غلطیوں سے سیکھنا چاہیے غلط فیصلوں سے سبق حاصل کرنا چاہیے کیونکہ اگر وہ شکست کی زمہ داری یوں ہی کھلاڑیوں پر عائد کرتے رہے تو ہماری ٹیم ورلڈ ٹی 20کپ میں دوسرے راونڈ میں بھی نہیں جاسکیں گے۔

ankara escort
balgat escort
çankaya escort
çebeci escort
demetevler escort
dikmen escort
eryaman escort
esat escort
etlik escort
keçiören escort
kızılay escort
kolej escort
rus escort
sincan escort
yenimahalle escort
alanya escort

شاید آپ یہ بھی پسند کریں