’’نواز شریف صاحب نے پی آئی اے کے تین ملازمین کی شہادت کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے استعفیٰ دے دیا۔‘‘
’’یہ آپ کی خواہش ہے یا خبر!!‘‘
’’خبر تو ہو نہیں سکتی اسی لیے خواہش کو ہی خبر بنایا ہے۔‘‘
’’بھلا وہ کیوں استعفیٰ دیں وہ ’ذمہ دار‘ نہیں۔‘‘
’’وہ غیر ذمہ دار ہیں تو پھر ذمہ دار کون ہے؟کیونکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے بھی ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کردیا ہے۔‘‘
’’ان کی ذمہ داری ہے جو گولیوں کا نشانہ بنے ۔یہ گولیوں کے سامنے نہ آتے اور نہ یہ واقعہ پیش آتا۔‘‘
’’تمہارا مطلب ہے گھر بیٹھ کر احتجاج کرتے۔‘‘
’’جی ہاں! احتجاج کرنے کا حق صرف سیاستدانوں کے پاس ہے۔عوام یہ کام کرے گی تو اسے گولیاں اور لاٹھیاں کھانی ہوں گی۔‘‘
’’ہمارے ملک کا المیہ ہے کہ بڑے بڑے واقعات اور سانحات پیش آتے ہیں لیکن کوئی ذمہ داری قبول نہیں کرتا۔‘‘
’’ایسی بھی کوئی بات نہیں ایک جماعت ہے جو ہر واقعہ کی ذمہ داری بلاجھجھک قبول کرتی ہے۔‘‘
’’وہ کون سی جماعت ہے؟‘‘
’’طالبان اور القاعدہ ۔۔۔کم از کم ہر واقعہ کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں چاہے کسی نے بھی کیا ہو۔‘‘
’’لیکن اس بار تو انھوں نے بھی ذمہ داری قبول نہیں کی۔‘‘
’’اسی لیے تو چیئرمین پی آئی اے نے استعفیٰ دے دیا ہے ۔‘‘
’’کیا وہ ذمہ دار ہیں؟‘‘
’’جب ذمہ دار لوگ اپنی ذمہ داری قبول نہ کریں تو ا ن کو اپنی ذمہ داری پر رہنے کا کیا حق پہنچتا ہے؟‘‘
’’یہ حق ان کو عوام نے دیا ہے۔‘‘
’’عوام نے ملک کو چلانے کا حق دیا تھا نہ کہ ملک کے اثاثوں کو بیچنے کا۔‘‘
’’پی آئی اے کی نجکاری کیے بغیر نہیں چلایا جاسکتا ۔‘‘
’’اب ایسی بات بھی نہیں ، میاں صاحب ملک چلا سکتے ہیں تو پی آئی اے کیا چیز ہے۔ ان کے پاس ایسا نسخہ خاص ہے جس پر عمل کرکے پی آئی اے کو نہ صرف بچایا جاسکتا ہے بلکہ اڑایا بھی جاسکتا ہے۔‘‘
’’ انہوں نے وہ نسخہ خاص زرداری صاحب کو دیا تھاکہ وہ نیویارک کا ہوٹل بیچ کر پی آئی اے کو کھڑا کریں ۔ ‘‘
’’میاں صاحب کے پاس تو کچھ بھی نہیں!‘‘
’’اگر کچھ ہوتا تو وہ پی آئی اے کبھی نہ بیچتے۔ خسارہ بہت بڑھ چکا ہے۔‘‘
’’خسارہ تو ملک کا بھی بہت بڑھ چکا ہے ، کہیں ملک کی بھی نجکاری تو نہیں ہوجائے گی۔ ‘‘
’’اگر اسی طرح نجکاری کا عمل جاری رہا تو وہ دن بھی دور نہیں جب ملک بھی بک جائے گا۔‘‘
’’پہلے جنگیں لڑ کر ملک پر قبضہ کیا جاتا تھا لیکن اب ملک کے اثاثہ جات پر قبضہ کیا جاتا ہے ۔ ‘‘
’’ سب بیچ دے ۔۔۔ نیا پاکستان نہیں چاہیے!!‘‘
’’سب بیچنے کے بعد سیاستدان تو ملک سے باہر چلے جائیں گے لیکن عوام ان کے قرضے نسل در نسل غلامی کی صورت اتارے گی۔‘‘
’’ اگر یہ بات ہے تو ہم اگلے الیکشن میں انہیں ووٹ نہیں دیں گے۔‘‘
’’آپ اپنا ووٹ اپنے پاس رکھیں، اگلے الیکشن تک تو یہ سب بیچ چکے ہوں گے ۔‘‘
’’اچھا اسی لیے زرداری صاحب پہلے ہی ملک سے باہر جاچکے ہیں۔‘‘
’’اور اب میاں صاحب ۔۔۔!!‘‘
میر شاہد حسین نے اپنے قلمی سفر کا آغاز بچوں کے ایک معروف رسالے سے 1995ءمیں کیا بعد ازاں آپ اسی رسالے کی ادارت سے منسلک ہوئے اور پھر اس کے مدیر بھی رہے، آپ کو بچوں کے ادب میں کئی ایوارڈزسے بھی نوازا گیا جن میں نیشنل بک فا ؤنڈیشن بھی شامل ہے
شاید آپ یہ بھی پسند کریں
نوٹ: اے آروائی نیوزکی انتظامیہ اور ادارتی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا نقطہ نظر پاکستان اور دنیا بھر میں پھیلے کروڑوں ناظرین تک پہنچے تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 700 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، سوشل میڈیا آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعار ف کے ساتھ ہمیں ای میل کریں ای میل ایڈریس: [email protected] آپ اپنے بلاگ کے ساتھ تصاویر اور ویڈیو لنک بھی بھیج سکتے ہیں۔