The news is by your side.

نو سو چوہے’حج‘ پر گئے

سنا ہے جب سے چوہوں کے دام لگے ہیں، چوہوں نے بلوں میں پناہ لے لی ہے لیکن کیا کریں کہ ان کی خبریں وقت بے وقت پتا نہیں کیوں ’لیک ‘ہوجاتی ہیں جبکہ ایک بھی چوہا کسی کے ہتھے نہیں چڑھتا۔ چوہوں کی دنیا بھی عجیب ہوتی ہے ، کھا کھا کر موٹے ہوئے جاتے ہیں لیکن کھانا پھر بھی نہیں چھوڑتے۔ کچھ چوہے تو اتنا کھا جاتے ہیں کہ ان کا زمین پر آزادی سے چلنا پھرنا دوبھر ہوجاتا ہے اور نوبت یہاں تک آجاتی ہے کہ ان کا ملک سے باہر جانا بھی مشکل ہوجاتا ہے۔ پھر انہیں باہر نکلنے کے لیے پتلا ہونے کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ آپ ان کو پکڑنے کے لیے کتنے بھی جتن کرلو، چاہے نیب لگا لو یہ کسی کے ہاتھ آسانی سے نہیں آتے۔

چوہوں کو پکڑنے یا ڈرانے کے لیے پہلے بلی کو گھر میں رکھا جاتا تھا لیکن آج کل چوہوں کو رکھا جاتا ہے۔ یہ پلے ہوئے چوہے بلی سے کسی طور کم دکھائی نہیں دیتے۔ اسی لیے بلی بھی ان کے آگے دُم ہلاتے دکھائی دیتی ہے۔ یہ چوہے اتنے تیز ہوگئے ہیں کہ ان کو مارنے کے لیے زہر بھی رکھا جائے تو یہ اسے منھ تک نہیں لگاتے بلکہ اکثرکھانے کو زہریلا کرنے میں ذرا دیر نہیں لگاتے۔ پتا نہیں یہ چوہے جس تھالی میں کھاتے ہیں اسی میں چھید کیوں کرتے ہیں؟

ایک روز بلی سے پوچھا گیا کہ وہ چوہے کیوں نہیں پکڑتی۔ کہنے لگی ہمیں چوہے پکڑنے کی کیا ضرورت ہے جب چوہوں کی طرف سے کھانے کو مل رہا ہے تو کیا ضرورت ہے ان کا نمک حرام کرنے کی۔ تو پھر اس سے مالک کا جو نمک حرام ہو رہا ہے بلکہ جینا حرام ہورہا ہے اس کا کیا؟ کہنے لگی مالک کے نمک پر بھی چوہوں کا قبضہ ہے ، جب مالک نے خود گھر کا کچن چوہوں کے حوالہ کررکھا ہو تو پھر ایسے میں بلی بیچاری کیا کرے؟ بلی کھسیانی ہوگی تو کھمبا ہی نوچے گی۔

آج کل کے چوہے خود کو شیر سمجھتے اور کہتے بھی ہیں۔ بڑی دیدہ دلیری سے شہر کی سڑکوں پروی وی آئی پی پروٹوکول میں دندناتے پھرتے ہیں اور کسی کو اپنا دیدار بھی نہیں کراتے۔عوام سے ڈرتے ہیں بے چارے ۔۔۔ آخر کو چوہے جو ہوئے۔انہیں تو سلاخوں کے پیچھے ہونا چاہیے لیکن کیا کریں۔۔۔ شیر ہوتے تو کب کے چڑیا گھر میں ہوتے لیکن اب یہ ٹھہرے چوہے ،بھلا چڑیا گھر میں ان کے لیے کوئی پنجرہ جو نہیں ہے، اسی لیے آزادی سے گھوم رہے ہیں۔ جب دل چاہتا ہے خود ہی چڑیا گھر کی سیر کو چلے جاتے ہیں اوروہاں کی تازہ ہوا کھا کر پھر سے اپنے کاروبار پر واپس آجاتے ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ قاضی جی کے گھر کے چوہے بھی سیانے ہوتے ہیں۔ اب بھلا قاضی جی ان چوہوں کو سبق تھوڑا ہی پڑھاتے ہیں اور پھر چوہے کیوں سبق لینے لگے، وہ توالٹا ہمیں سبق سکھاتے ہیں لیکن ہم ان سے سبق لینے کے لیے تیار نہیں۔ان سیانے چوہوں کی تلاش میں مدرسوں میں چھاپے بھی مارے گئے لیکن چوہے پھر بھی ہاتھ نہ آئے؟ میرا مشورہ تو یہ ہے کہ قاضی جی کے چوہے نہیں پکڑے جاتے تو شاہ دولہ کے چوہے ہی پکڑ لیں ۔۔۔ کم سے کم یہ تو کہہ سکیں گے کہ ہم نے چوہے پکڑے ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ کھودا پہاڑ نکلا چوہا لیکن یہاں تو پہاڑ کے پہاڑ کھودنے کے بعد بھی چوہا نہیں نکلتا۔آج کل چوہے پہاڑوں میں نہیں رہتے بلکہ عالیشان محلات میں رہتے ہیں ۔

پاکستانی چوہوں کی دیدہ دلیری دیکھ کر بھارت سے بھی کچھ چوہے ادھر آنکلے تھے لیکن ایک چوہے کو پکڑا تو اس نے سب چوہوں کے نام اگل دیے۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ چوہوں کی بھی حدود ہوتی ہیں اور اگر وہ حدود سے تجاوز کریں تو انہیں پکڑنا پڑتا ہے ورنہ طاعون جیسی موذی بیماری جنم لیتی ہے جس سے نجات بھی ممکن نہیں۔
نو سو چوہے ملک کو کھانے میں لگے ہوئے ہیں اور ان کے ساتھ چوہے بلی کا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ پاکستانی عوام ایک عرصہ سے یہ چوہے بلی کا کھیل دیکھ دیکھ کر بیزار آچکی ہے ۔اب وہ چاہتی ہے کہ یہ کھیل بند کیا جائے اور کوئی نیا کھیل شروع کیا جائے۔نیا کھیل شروع ہونے والا ہے ،دیکھتے رہیے کہیں مت جائیے گا۔۔۔!!

شاید آپ یہ بھی پسند کریں