The news is by your side.

عدالتوں میں سائلوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے جبر کی داستاں

اب  میں کیا بولوں، کیا لکھوں ۔۔۔ لیکن ضروری ہے، مجبوری، جبر ہے، تو پڑھیے ایک اورجبر کی داستان ہے۔

ایک ستم رسیدہ بوڑھے کی آپ بیتی ۔۔۔۔۔  جس کی اب لاٹھی  دیمک زدہ ہو گئی ہے لیکن یقین کریں اس کی لاٹھِی  میں پھر جان ہے  بس رحم نہیں ہےتو پاکستان کے قانون  نافذکرنے والے اداروں کو چلانے والوں میں اوربوجھ اٹھانے کی سکت نہیں ہے توعدالتی نظام میں۔

گزشتہ نو سالوں سے عدالتوں کے چکر لگاتے یہ ہیں  74 سالہ عبدالرشیدں بارہ  سال قبل اپنے اغوا کا مقدمہ تھانے میں درج کرانے کے لئے گئے لیکن یہاں زیادہ نہیں کچھ با اثر افراد  یعنی ایک پیٹرول پمپ کے مالک کی مداخلت کے باعث وہ مقدمہ درج نہیں ہو سکا۔لیکن وہ بھی دھن کے پکے تھے انصاف لینے کو عبادت سمجھتے تھے، عدالتوں سے رجوع کیا تو کوئی چھ مہینے جوتیاں چٹخانے کے بعد مقدمہ درج ہو گیااور معزز جج نے 14 دن میں چالان جمع کرانے کی ہدایت کی۔ وہ بڑے خوش ہوئے کہ ’’واہ بھائی کام ہوگیا‘‘۔ لیکن جناب ان کا کام واقعی ہو گیا کیوں کہ گذشتہ نو سالوں میں ان کے مقدمے کا چالان ہی جمع نہیں ہوا ہے۔ اب جناب عبدالرشید  بابا ہیں اور عدالتیں، وہ چکرپرچکرکاٹتے ہیں کبھی سندھ ہائی کورٹ تو کبھی سٹی کورٹ اور ہرپیشی پر یہ امیدرکھتے ہیں کہ ان کا کام بن جائےگا لیکن بابا کو کیا معلوم کہ جناب قائد اعظم سے عقیدت و احترام اپنی جگہ قائد اعظم کی تصویروں کو دوسروں کی جیبوں میں منتقل بھی کرنا ہوتا ہے ایسے کام نہیں ہوتا اور ان کے پاس وہ ہے نہیں جو فائلوں کو پہیہ لگادے۔

کچھ اور بھی لکھو ں تو پڑھئیے  عدالتوں کی راہدریوں سے ایک وکلاء گردی کی داستان یہ آپ بیتی ایک نوجوان  شہری اور وکیل کی ہے،  دونوں رشتے دارہیں اوربدلے کی آگ میں جھلس رہے ہیں لیکن بدلہ لیں کیسے۔
طے یہ پایا کہ مقدمہ بنادیں، آجائے گا’’اونٹ پہاڑ کے نیچے ‘‘ اور جب آپ کا رشتہ دار سائل  بن کر عدالت پہنچے گا تو پھر  مرد وکلاء کے ساتھ مل کر خوب جوتے لگائیں کوئی غم نہیں۔ یہاں کسی پولیس والے کے اندر دم ہے کہ آپ کو روکے اور نہ ہی کسی  اور میں کہ ۔۔۔۔۔ جن سے سب ڈرتے ہیں۔

خوب ماریں اور بند کردیں سٹی کورٹ تھانے میں اب بیچارا جب  آئے گا سماعت پر تو اس کی خوب دھنائی ہوگی، اس موقع پر مجھے بچپن میں کھیلا جانے والا ایک بچوں کا کھیل  یا د آرہا ہے کہ کیا ہے نا۔۔۔

’’چائے کی پیالی پوچم پوچھ، بنگلے کا تالہ ٹوٹ گیا، اب جو چور آئے گا، آخر میں پکڑا جائے گا، خوب مارکھائے گا‘‘۔

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں