’’سنا ہے وزیر اعظم صاحب کو ہوش آگیا ہے؟‘‘
’’ نہ صرف ہوش آگیا ہے بلکہ وہ اب گھر بھی لوٹ آئے ہیں؟‘‘
’’وزیر اعظم صاحب کو تو ہوش آگیا ،قوم کو کب ہوش آئے گا؟‘‘
’’وزیراعظم صاحب نے تو باہر سے آپریشن کروایا تھا قوم کا بھی آپریشن کروانا پڑے گا۔‘‘
’’آپریشن ضرب عضب ہوا تو ہے ۔‘‘
’’ لیکن یہ آپریشن پاکستانی کررہے ہیں، میرا اشارہ غیر ملکی آپریشن کی طرف ہے۔‘‘
’’ یہ تم اشارے مت کیا کرو، مجھے اشارے سمجھ میں نہیں آتے۔‘‘
’’ یہی تو مسئلہ ہے اشاروں کے بغیر ملک نہیں چل سکتا۔ ‘‘
’’وہ کیسے؟‘‘
’’سیدھی سی بات ہے سرخ بتی پر رکنا ہے اور سبز بتی پر نکلنا ہے ۔ یہ اشارے ہمارے لیے ہی تو ہیں۔‘‘
’’ مجھے ابھی اشارے نہیں سمجھنے ۔۔۔ رمضان آگیا ہے۔‘‘
’’ وہ تو میرے پاس بھی باقاعدگی سے آتا ہے راشن پانی دے کر رخصت کرو۔ ‘‘
’’ وہ راشن پانی لینے نہیں آیا ہمیں جگانے آیا ہے۔‘‘
’’رمضان کا کام ہی یہی ہے۔۔۔ چوکیدار جو ہوا ہمارے محلہ کا۔ ‘‘
’’ میں چوکیدار رمضان کی بات نہیں کررہا میں ماہ رمضان کی بات کررہا ہوں۔‘‘
’’ تو کھل کر کہو ناں یہ اشاروں میں تم نے بھی بات شروع کر دی۔‘‘
’’ میں نے تو کوئی اشارہ نہیں کیا ، تم خود ہی مطلب غلط لے لیتے ہو۔‘‘
’’ مطلب کی بات کرو ، ماہ رمضان آگیا ہے تو اب کیا ہونا چاہیے؟‘‘
’’ کچھ نہیں ہونا چاہیے ۔۔۔ صرف لوڈشیڈنگ کا دورانیہ کم ہونا چاہیے یا پھر کم از کم سحر و افطارا ور تراویح میں لوڈشیڈنگ نہیں ہونی چاہیے ۔ اتنا احترام تو زرداری نے بھی کیا تھا ، یہ تو پھر خاندانی شریف ہیں۔‘‘
’’ وزیر اعظم صاحب ملک میں نہیں ورنہ وہ ضرور اس بات کا سختی سے نوٹس لیتے۔‘‘
’’ ان کے نوٹس سے ہی ملک چل رہا ہے، ﷲ ان کو لمبی عمر دے، اگر یہ نہیں ہوں گے تو کیا ملک نہیں چلے گا۔‘‘
’’ یہ بات قوم جانتی ہے اسی لیے وہ ان کو ہی ووٹ دیتی ہے۔ ‘‘
’’ لیکن اس سے پہلے کتنے لوگ اس دنیا سے چلے گئے جن کا یہ خیال تھا کہ ان کے بغیر یہ دنیا نہیں چل سکتی۔‘‘
’’یہ بات قوم ماننے کو تیار نہیں ۔ تم بس مسجد میں جا کرﷲ ﷲ کرو ، ہمیں اپنا کام کرنے دو۔‘‘
’’ تو مسجد میں جب ﷲ پوچھے گا کہ تم سود لیتے ہو ، میرے خلاف جنگ کرتے ہو تو میں کیا جواب دوں گا؟‘‘
’’ کہہ دینا میں توسود نہیں لینا چاہتا لیکن شریف صاحب نے کہا تھا کہ اس کے بغیر ملک نہیں چل سکتا۔‘‘
’’اچھا اگر ﷲ نے پوچھ لیا کہ تم میرے بندہ ہو یا شریف کے؟تو بولو پھر کیا جواب ہوگا؟‘‘
’’ سیاسی باتیں مت کرو، مسجد میں جا کر بس ﷲ ﷲ کرو، ﷲ کچھ نہیں پوچھے گا۔‘‘
’’ ٹھیک کہا، ﷲ واقعی نہیں پوچھے گا۔ شریف کے بغیر ملک نہیں چل سکتا، سود کے بغیرملک نہیں چل سکتاتو پھرکیا اسلام کے بغیر ملک چل سکتا ہے؟‘‘
’’دیکھ نہیں رہے اتنے سالوں سے چل تو رہا ہے ۔‘‘
’’ٹھیک کہا، بالکل اسی طرح جیسے بغیر وضو کے نماز ہوجاتی ہے۔اگر یقین نہیں تو پڑھ کے دیکھ لو۔‘‘
میر شاہد حسین نے اپنے قلمی سفر کا آغاز بچوں کے ایک معروف رسالے سے 1995ءمیں کیا بعد ازاں آپ اسی رسالے کی ادارت سے منسلک ہوئے اور پھر اس کے مدیر بھی رہے، آپ کو بچوں کے ادب میں کئی ایوارڈزسے بھی نوازا گیا جن میں نیشنل بک فا ؤنڈیشن بھی شامل ہے
شاید آپ یہ بھی پسند کریں
نوٹ: اے آروائی نیوزکی انتظامیہ اور ادارتی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا نقطہ نظر پاکستان اور دنیا بھر میں پھیلے کروڑوں ناظرین تک پہنچے تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 700 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، سوشل میڈیا آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعار ف کے ساتھ ہمیں ای میل کریں ای میل ایڈریس: [email protected] آپ اپنے بلاگ کے ساتھ تصاویر اور ویڈیو لنک بھی بھیج سکتے ہیں۔