The news is by your side.

کراچی کو حقیقی امن کی ضرورت ہے

شہر کراچی میں گزشتہ کئی روز سے امن وامان کی بگڑتی ہوئی صورتحال سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آج بھی اس شہر میں دہشت گردوں کا راج ہے حالانکہ گزشتہ 3 سال سے کراچی میں رینجرز و پولیس کا آپریشن جاری ہے مگر اس کے باوجود دن دیہاڑے ایک ممتاز مشہور و معروف ثناء خواں قوال جناب امجد صابری صاحب کو لیاقت آباد 10 نمبر پران کے گھر کے قریب دہشت گردوں کی جانب سے گولیوں کا نشانہ بنانا رینجرز اور پولیس کے آپریشن پر سوالیہ نشان ہے؟۔ شہر کراچی اور پورے ملک میں امجد صابری کی شہادت کی خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی اور ہرسو سماع سوگ میں ڈوب گیا اور پھر ہر طرف سے مذمتوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوگیا متحدہ قومی موومنٹ کی جانب سے3 روزہ سوگ کا اعلان کیا گیا، پیپلزپارٹی، تحریک انصاف، مسلم لیگ نواز، وزیراعظم ، گورنر سندھ اور دیگر مختلیف شعبہ ہاے زندگی سے تعلق رکھنے والے ہر فرد کی جانب سے اس قومی سانحے پر اپنے رنج و غم کا اظہار کیا گیا۔

شہر کراچی میں ٹارگٹ کرکے قتل کرنے کا یہ کوئی پہلا واقع نہیں اس سے قبل پروفیسر شکیل اوج صاحب کو 18 ستمبر 2014کو نامعلوم افراد کی جانب سے ٹارگٹ کرکے قتل کردیا گیا، ابھی کچھ ماہ ہی گزرے تھے کہ24 اپریل 2015 کو ایک سماجی کارکن سبین محمود کوٹارگٹ کلرنے باآسانی اپنی درندگی سے شہید کردیا۔ اسی طرح 13 مئی 2015 کو ٹارگٹ کرکے اسماعیلی برادری کی بس کو نشانہ بنایا گیا جس میں 45 سے زائد افراد ہلاک ہوئے جس میں بچے اور خواتین بھی شامل تھے ، حکمران جماعت و دیگر کی جانب سے روایتی مذمتی بیانات آئے، سیکیورٹی اداروں کی جانب سے سخت ایکشن لینے کا عزم ظاہر کیا گیا مگر اس طرح کے سانحات سے بچنے لے لیے کوئی خاص حکمت عملی نہیں اپنائی گئی۔

کراچی آپریشن کے دوران دہشت گرد کھلے عام دندناتے رہے کوئی ان کو لگام دینے والا نہیں 18اگست 2015 کو ایم کیو ایم کے ممبر قومی اسمبلی رشید گوڈیل صاحب پر قاتلانہ حملہ ہوا جس میں وہ خوش قسمتی سے بچ گئے مگرآج تک وہ گتھی سلجھنہ سکی کہ آخر ان واقعات میں کون ملوث ہے۔

چند ہفتوں قبل 7 مئی 2016 کو سبین محمود و دیگر سماجی کارکن کی طرح ایک اور سماجی کارکن خرم زکی کو کھلے عام درندہ صفت دہشت گردوں کی جانب سے شہید کردیا گیا۔ یہ وہ قتل ہیں جو میڈیا پرخبر آنے سے ریکارڈ پرآجاتے ہیں ایسے بہت سے واقعات ہیں جو روز شہر میں رونما ہوتے ہیں مگر ان کے قتل سے ہمارے میڈیا کو ریٹنگ نہیں ملتی اسی لیے عام ڈاکٹرز اور انجینئرز کے قتل کا کسی کو نہیں بتایا نہیں جاتا۔

بیشتر ہائی پروفائل کیسوں میں کالعدم تنظیموں یا پھر ان کی ہم خیال دہشتگرد تنظیموں کی جانب سے قتل کی ذمہ داری بھی قبول کی جاچکی ہے اس کے علاوہ سانحہ صفورا جس دہشت گردوں نے اسماعیلی برادری اور سماجی کارکن سبین محمود کو جن دہشت گردوں نے ٹارگٹ کیا ان کا تعلق ماضی میں مذہبی و سیاسی جماعت سے رہا تھا۔ سانحہ صفورا کے چند قاتل تو اپنے انجام کو پہنچ گئے مگر ان کا کیا جویہ مائینڈ سیٹ تیار کرتے ہیں اور کررہے ہیں اور نہ جانے کتنے ان کے مہرے ہمارے گلی محلوں میں گھوم رہے ہیں ؟ کیا کبھی قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے جماعت اسلامی و دیگر کالعدم تنظیموں کے دفاتر پر چھاپہ مارا گیا یا ان سے پوچھ گچھ کی گئی، کبھی نہیں کی گئی، سوال یہاں یہ ہے کہ دہشت گرد کالعدم تنظیموں اورطالبان سے ہمدردی رکھنے اورانہیں پناہ دینے والوں کو شامل تفتیش کیوں نہیں کیا جاتا ؟۔

چند روز قبل چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ سجاد شاہ صاحب کے بیٹے کو ڈیفنس میں ایک سپر اسٹور کے قریب سے اغوا کرلیا گیا تھا جس کے باعث پورے شہر میں چھاپے مارے جارہے تھے اور ہائی الرٹ تھا ۔ ابھی چیف جسٹس سجاد علی شاہ صاحب کے بیٹے کی بازیابی کے لیے متعلقہ ادارے کاروائی میں مصروف تھے کہ سخت سیکورٹی اور ہائی الرٹ کے باوجود سجاد شاہ صاحب کے فرزند اویس شاہ صاحب تو نہ ملے مگراس کے دو روز بعد 22 جون کو دن کی روشنی میں مشہور و معروف قوال امجد فرید صابری کودہشت گردوں نے باآسانی اپنی درندگی کا نشانہ بناکر کراچی کے شہریوں کی سیکورٹی اور شہر میں ہائی الرٹ کی قلعی کھول دی۔

شہر کراچی میں کالعدم تنظیموں کی جانب سے کھلے عام جلسے جلوس کرنا یا ریلی نکالنا کیا یہ نیشنل ایکشن پلان کا ہی حصہ ہے کہ دہشت گردوں کو تحفظ دے کر عام شہریوں کو دن دیہاڑے مرنے کے لیے بے یارو مددگار چھوڑ دیا جائے ؟ کیا ہماری سیکورٹی پالیسی ناکام ہوگئی ہے یا پھر متعلقہ افراد شہریوں کو تحفظ دینا نہیں چاہتے ؟ وقت اور حالات کا تقاضا ہے کہ کراچی آپریشن کی سمت درست کی جائے اور حقیقی معنی میں دہشت گردوں کے خلاف کاروائی کی جائے، نیشنل ایکشن پلان کی اصل مقاصد اور 26 دسمبر2014 کو اسلام آباد میں پارلیمانی جماعتوں کے اجلاس میں دہشت گردوں کے خلاف مربوط کاروائی کے لیے جن شقوں پر اتفاق رائے کیا گیا تھا اس پر عمل درآمد کیا جائے تاکہ کراچی کی عوام کو امن میسر آسکے۔ کالعدم تنظیموں و دہشتگردوں اوران کے ہم خیالوں کے خلاف بھرپور کاروائی ہونا چاہیے کیونکہ کراچی کی عوام کو حقیقت میں امن چاہیے۔

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں