The news is by your side.

پاکستان ایک بارپھرانگلینڈ کی سرزمین پر

پاکستان ان دنوں انگلینڈ کے دورے پرہے جوکہ چوبیسویں 24 ویں ٹیسٹ سیریزہے جس میں سے 9 انگلینڈ کے نام رہیں , 8 پاکستان جیتا اور 6 سیریزڈرا ہوئیں۔ کیا پاکستان موجودہ ٹیسٹ سیریز جیت کر انگلینڈ کی مجموعی برتری ختم کرنے میں کامیاب ہوگا یا نہیں یا پھر انگلینڈ مزید آگے بڑھ جائے گا؟ پاکستان دورہ انگلینڈ میں دونوں ٹیموں کے مابین 14 جولائی سے 7 ستمبر 2016 تک 56 دن کے دوران 5 ایک روزہ میچز، 4 ٹیسٹ میچز اورایک ٹی 20 میچ کھیلا جانا ہے۔

اگر ہم ماضی یا تاریخ کی بات کریں تو دونوں ٹیموں کے درمیان پہلی مرتبہ 1954 میں 10 جون سے 15 جون تک پہلا ٹیسٹ میچ لارڈذ میں کھیلا گیا تھا ،سیریز کا نتیجہ 2 ڈرا اور دونوں ٹیمیں ایک ایک میچ جیتیں۔

MATCH POST 1

1962میں انگلینڈ پاکستان آیا جس میں نتیجہ انگلینڈ کے حق میں رہا 3 ٹیسٹ کی سیریز میں 2ڈرا ہوئے اور ایک انگلینڈ جیتا اور سیریز انگلینڈ کے نام رہی۔

1962میں پاکستان انگلینڈ گیا اور میزبان ٹیم نے 5 ٹیسٹ کی سیریز میں 4صفر سے شکست دی۔

1967میں پھر پاکستان انگلینڈ کے دورے پر گیا اور پھر شکست پاکستان کے حق میں آئی اور3 ٹیسٹ کی سیریز میں میزبان ٹیم نے 2 صفر سے شکست دی۔

انگلینڈ کی ٹیم 1968 میں پاکستان آئی اور 3 ٹیسٹ کی سیریز بغیر نتجے کے ختم ہوئی اور تینوں ٹیسٹ ڈرا ہوئے۔

MATCH POST 2

1971میں پاکستان انگلینڈ کی میزبانی میں وہاں کے میدانوں میں اترا مگر نتیجہ وہی رہا 3 ٹیسٹ کی سیریز انگلینڈ 1 صفر سے جیت گیا۔

1972میں انگلینڈ پاکستان کے میدان میں اترا اور 3 ٹیسٹ میچز کی سیریز نتیجہ خیز نہیں رہی اور تینوں ٹیسٹ ڈرا رہے ،

1974میں پاکستان ٹیم انگلینڈ کے دورے پر گئی اور تین ٹیسٹ میچز کا نتیجہ سیریز ڈرا رہی۔

1977میں انگلینڈ پاکستان آیا اور 3 ٹیسٹ میچ کی سیریز ڈرا رہی۔

1978میں پاکستان دورہ انگلینڈ تین میچ کی سیریز کا نتیجہ انگلینڈ نے دو میچ جیتے اور 1 ڈرا ہوا۔

پاکستان کا دورہ انگلینڈ 1982 تین ٹیسٹ میچز کی سیریز پاکستان ایک جیتا اور دو انگلینڈ نتیجتاً سیریز انگلینڈ کے نام رہی۔

انگلینڈ دورہ پاکستان 1983 ، تین ٹیسٹ میچز کی سیریز 2 ٹیسٹ ڈرا اور 1 پاکستان جیتا اور یوں پہلی مرتبہ پاکستان کامیاب ہوا۔

پاکستان دورہ انگلینڈ 1987، 5میچز کی سیریز میں 1 پاکستان جیتا اور 4 ڈرا رہے سیریز کا نتیجہ پاکستان نے سیریز ایک صفر سے اپنے نام کی۔

انگلینڈ دورہ پاکستان 1987 , تین ٹیسٹ کھیلے گئے جس میں ایک پاکستان جیتا اور دو کا کوء نتیجہ نہیں نکلا اور یوں پاکستان ایک صفر سے سیریز جیت گیا۔

پاکستان دورہ انگلینڈ 1992 ، تین ٹیسٹ میچز کھیلے گئے نتیجہ ایک ڈرا اور دو پاکستان کے نام رہے اور سیریز بھی پاکستان کے نام رہی۔

MATCH POST 5

پاکستان دورہ انگلینڈ 1996 , 3ٹیسٹ میچز کی سیریز میں سے ایک ڈرا ہوا اور دو میچز پاکستان کے نام رہے اور یوں سیریز بھی پاکستان کے نام رہی۔

انگلینڈ کا دورہ پاکستان 2000 , تین ٹیسٹ میچ کی سیریز میں ایک انگلینڈ نے اپنے نام کی اور دو ڈرا رہے۔

پاکستان دورہ انگلینڈ 2001, 2 ٹیسٹ میچز کی سیریز میں دونوں ٹیمیں ایک ایک میچ جیتے۔

انگلینڈ دورہ پاکستان 2005, تین ٹیسٹ کی سیریز میں مہمان ٹیم کو دو صفر سے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

پاکستان دورہ انگلینڈ 2006 , 4 میچز میں سے تین انگلینڈ کے نام رہے اور ایک ڈرا ہوا۔

پاکستان دورہ انگلینڈ 2010 , 4 میچز کھیلے گئے تین انگلینڈ جیتا اور ایک ڈرا ہوا سیریز انگلینڈ کے نام رہی۔

2012 پاکستان کی میزبانی میں انگلینڈ متحدہ عرب امارات پہنچا تین ٹیسٹ میچز کھیلے گئے اور تینوں پاکستان کے نام رہے۔

انگلینڈ پاکستان کی میزبانی میں 2015 میں یو اے ای پہنچا جہاں تین ٹیسٹ کھیلے گئے دو پاکستان جیتا اور  ڈرا ہوا۔

سن 1954 سے لیکر جولائی 2016 تک کل ملا کر دونوں کے درمیان 79 ٹیسٹ میچز کھیلے جاچکے ہیں جس میں سے 23 انگلینڈ جیتا اور 19 پاکستان کے نام رہے اور 37 میچز کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔

MATCH POST 3

پاکستان دورہ انگلینڈ 2016 کے 4 میچزکی ٹیسٹ سیریزکے اب تک دو ٹیسٹ میچز کھیلے جاچکے ہیں اور سیریز میں دونوں ٹیمیں ایک ایک میچ جیت چکی ہیں ، جس میں سے پہلا لارڈذ ٹیسٹ میچ پاکستان کے نام رہا جس کے بعد پاکستان میں ہرطرف سے ٹیم اور دیگرٹرینرز کو مبارکباد دینے کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوگیا تھا اور مصباح الحق کے سنچری اسکور کرنے کے بعد ان کے پش آپس کو بھی سراہا گیا اور ملک کے سپہ سالار نے بھی تمام مصروفیات ترک کرکے کپتان کو کال کرکے مبارکباد دی ، ملک ریاض کی جانب سے انعامی رقم کا اعلان کیا گیا ، مگر کسی نے جیت کی خوشی میں خامیوں پر غور نہ کیا ہمارا اوپننگ پیئر ایک بار پھر ناکام رہا ، مصباح الحق , اسد شفیق , یاسر شاہ کے علاوہ کسی کی کاکردگی متاثرکن نہ تھی مگر ہماری ٹیم جیت کی خوشی میں اتنی پراعتماد تھی کہ کسی نے سوال اٹھانا گوارا نہ کیا ، حالانکہ پہلے ٹیسٹ میچ کے بہت سے سیشنز میں کپتان کی جانب سے فیلڈ اور بالنگ چینجز میں غلطیاں کی گئیں مگر جیت نے سب پر پردہ ڈال دیا، پہلے میچ میں 3 کیچز چھوڑے گئے تھے دوسرے میچ میں مجموعی طور پر 5 سے زائد کیچز چھوڑے گئے، پاکستان کی خود اعتمادی اور عوام کی جانب سے ضرورت سے زیادہ سر پر بٹھانا ٹیم کو مہنگا پڑگیا ،پہلے ٹیسٹ میچ میں 75 رنز سے شکست کھانے والی ٹیم انگلینڈ نے دوسرے ٹیسٹ میں رنز کے انبار لگادیے اور ہم دو اننگ کھیل کر بھی ان کی پہلی اننگ کے اسکورتک نہ پہنچ سکے۔

دوسرے ٹیسٹ کی پہلی اننگ میں انگلینڈ نے پہلے کھیلتے ہوئے 589 رنز بناکر اننگ ڈکلئیرکردی تھی جس کے جواب میں پاکستانی ٹیم نے اپنی پہلی اننگ میں صرف 198 رنز بناے جس کے بعد انگلینڈ نے فالو آن کے بجائے اپنے بالرز کو آرام دینے کی غرض سے دوبارہ بیٹنگ کا فیصلہ کیا اور391 کی برتری کے ساتھ دوسری اننگ شروع کی اور 173 رنز بناکر 1 وکٹ کے نقصان پراننگ ڈ یکلئیر کی، انگلینڈ کی جانب سے ایلسٹر کک ، جوے روٹ نے نصف سینچریز بنا ئیں  اورناٹ آوٗٹ رہے ، دوسری اننگ میں پاکستان ٹیم کو انگلینڈ کی جانب سے 565 رنزکا ہدف دیا گیا مگرپاکستانی بیٹسمین غیرمعیاری شارٹس کھیل کر آتے جاتے رہے اور ہدف کا آدھا اسکور بھی نہ بناسکے اور پوری ٹیم 234 پر ڈ ھیر ہوگئے. اور یوں انگلینڈ باآسانی 330 رنز سے دوسرا ٹیسٹ میچ جیت گیا۔ اولڈ ٹریفورڈ مانچسٹر میں دوسرے ٹیسٹ میں بدترین شکست کی مکمل ذمہ داری شائقین کرکٹ اوردیگرحکام پرہے کیونکہ آپ کی ضرورت سے زیادہ حوصلہ افزائی  کی وجہ سے کرکٹ ٹیم اپنی خامیاں دیکھتی ہی نہیں، جیتنے پرتو سب لے رہے تھے شاباشی دے رہے تھے اب جب شکست پرکپتان کو حوصلے کی ضرورت ہے تو کسی نے آگے بڑھ کر سپورٹ نہیں کیا۔

MATCH POST 4

ہمیں ماضی سے سبق سیکھ کرآگے بڑھنا چاہیے ابھی سیریز ختم نہیں ہوئی، دو میچزاور باقی ہیں یہ بھی یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ جیت ہار کھیل کا حصہ ہے جیتنے پر خوشی ضرور منائیں مگر ہمیں جیتنے پر خوشی مناتے ہوئے یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ سامنے والی ٹیم کے پاس بھی کھلاڑی ہیں کل وہ بھی اچھا کھیل پیش کرسکتے ہیں اسی لیے کہتے ہیں اسپورٹس میں ہمیشہ اچھے کھلاڑی اور ٹیم کو سراہنا چاہیے نہ کہ صرف اپنی ٹیم یا کھلاڑی کو، یہ کرکٹ ہے اس میں کب کوئی  کیا ریکارڈبنا ڈالے کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا، جس دن ہم اپنی شکست سے سیکھنا شروع کردیں گے اور خامیوں سے آنکھیں چرانا بند کردیں گے اس دن ٹیم پرفارمنس کے 80 فیصد مسائل ختم ہوجائیں گے.
مگرسوال یہ ہے کہ اگرہم مسلسل ایک ہی غلطی دہرا دہرا کر قوم کی دعاؤں سے جیت کرکبھی ہم رینکنگ میں نمبر ون بھی بن گئے تو کیا ہم عالمی کرکٹ کے معیار تک پہنچ جائیں گے ؟۔

عالمی کرکٹ کے معیار تک پہنچنے کے لیے حکام کو چاہیے کہ کلب اور دیگر نیچے لیول پرزیادہ سے زیادہ توجہ دیں ورنہ پاکستانیوں کو غیر معیاری کرکٹ دیکھنے کی عادت ڈال لینا چاہیے۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں