’’کیا بات ہے ، آج کل بہت چپ چپ ہو؟‘‘
’’کیا بتاؤں کوئی بھی چیز قابل بھروسہ جو نہیں رہی آج کل۔‘‘
’’ آپ کا بھروسہ کون توڑ سکتاہے، جو کسی پر بھروسہ ہی نہیں کرتا۔‘‘
’’ اب ایسی بھی کوئی بات نہیں، قائم علی شاہ کو دیکھ کر ایسا لگتا تھا کہ جیسے وہ ہمیشہ اپنی سیٹ پر قائم ہی رہے گا لیکن۔۔۔‘‘
’’لیکن قائم علی شاہ کے جاتے ہی کسی کی مراد بھر آئی ہے ۔‘‘
’’ ایک شاہ کے بعد دوسرے شاہ نے جگہ لے لی ہے۔گویا شاہ کو مارے شاہ مدار۔‘‘
’’مارے کو مارے شاہ مدار، تو سنا تھا یہ شاہ کو مارے شاہ مدار پہلی بار سنا ہے۔‘‘
’’اب پتا نہیں قائم علی شاہ کے جاتے ہمیں کیا کیا پہلی بار سننا پڑے گا۔‘‘
’’تم فکر نہ کرو ، ابھی تو بہت لوگ ہیں جو اپنی سیٹ پر قائم و دائم ہیں جیسے لاہور کے آسمان پر اڑتا شہباز اور کراچی کا ہر دور میں راج کرنے والا عشرت جس کا نام گنیر بک آف ورلڈ ریکارڈ میں نام آنا چاہیے۔‘‘
’’ وہ تو سب ٹھیک ہے لیکن مجھے فکر کھائے جا رہی ہے بدلتے موسم کی۔ ‘‘
’’ہاں موسم تو واقعی بہت تیزی سے بدل رہا ہے،بارش نے تو جیسے پورے ملک میں جھل تھل کرکے رکھ دی ہے۔‘‘
’’ لیکن کراچی والے پھر بھی بارش کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں۔‘‘
’’ کراچی میں بارش ہوجاتی تو شاید دودھ کے دھلے بھی باہر آجاتے ۔‘‘
’’ لیکن کراچی کے موسم نے تو کئی ایک کی امیدوں پر اوس ڈال دی ہے۔ ‘‘
’’واقعی بارش ہوتی ہے تو ایسا لگتا ہے جیسے کسی کی امیدوں پر اوس پڑ رہی ہو۔‘‘
’’لیکن ایک بات تو ہے کہ کراچی میں برسات نہ ہونے کی وجہ سے برساتی مینڈک بھی باہر نہیں نکل رہے۔‘‘
’’وہ بھلا کیسے باہر نکلیں جب اتنی بڑی تعداد میں کتوں کی ٹارگٹ کلنگ ہورہی ہو۔‘‘
’’ کراچی میں کتوں کی تعداد میں جو اتنا اضافہ جو گیا تھا ، جدھر دیکھو سڑک ، چوک ، چوراہے پر آزادانہ منڈلاتے پھر رہے تھے۔‘‘
’’اور تو اور آئے روز کاٹنے سے بھی باز نہیں آتے تھے۔‘‘
’’ لیکن میں پھر بھی فکر مند ہوں کیونکہ میرا ٹومی کئی دن سے لاپتہ ہے ۔‘‘
’’ دیکھ لو وہ کسی پارٹی میں تو نہیں نکل گیا۔ آج کل پارٹیاں بہت ہو رہی ہیں۔کسی پارٹی میں کھانے کے لیے نہ گھس گیا ہو۔‘‘
’’ میرا ٹومی ایسا نہیں ہوسکتا، وہ بہت قابل بھروسہ تھا۔مجھے تو لگتا ہے کوئی اسے پکڑ کر لے گیا ہے۔‘‘
’’کیا بات کرتے ہو۔۔۔ پہلے پارٹیوں میں کتے پیٹ بھرنے کو پہنچ جاتے تھے لیکن اب تو پارٹیوں میں کتوں سے ہی۔۔۔‘‘
’’اخ تھو۔۔۔ گدھے اور کتے کا گوشت کھائے گی یہ قوم۔۔۔اخ تھو!!‘‘
’’حرام کھاتے ہوئے تو کبھی نہیں تھوکا۔۔۔ پھر فکر کس بات کی؟‘‘
’’ ہائے میرا ٹومی۔۔۔ پتا نہیں کس حال میں ہوگا؟‘‘
میر شاہد حسین نے اپنے قلمی سفر کا آغاز بچوں کے ایک معروف رسالے سے 1995ءمیں کیا بعد ازاں آپ اسی رسالے کی ادارت سے منسلک ہوئے اور پھر اس کے مدیر بھی رہے، آپ کو بچوں کے ادب میں کئی ایوارڈزسے بھی نوازا گیا جن میں نیشنل بک فا ؤنڈیشن بھی شامل ہے
شاید آپ یہ بھی پسند کریں
نوٹ: اے آروائی نیوزکی انتظامیہ اور ادارتی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا نقطہ نظر پاکستان اور دنیا بھر میں پھیلے کروڑوں ناظرین تک پہنچے تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 700 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، سوشل میڈیا آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعار ف کے ساتھ ہمیں ای میل کریں ای میل ایڈریس: [email protected] آپ اپنے بلاگ کے ساتھ تصاویر اور ویڈیو لنک بھی بھیج سکتے ہیں۔