کاغان جاتے ہوئے ایک سفر کے دوران مجھے بہت افسوس ہوا جب میں نے دریائے کنہار کے پاس جا بجا چپس اور ٹافیوں کے ریپر دیکھے۔ دو منٹ کو میں نے یہ ضرور سوچا کہ پاکستان کے سیاحتی مراکز کو کوئی غیر کیا نقصان پہنچائے گا جبکہ ہم خود ہی اس کی تباہی میں شریک ہیں۔
بچوں کی سکول کی چھٹیاں ہوں یا دفتر کی طرف سے کوئی ٹرپ، ایمانداری کی بات تو یہی ہے کہ ہم میں سے بہت سے لوگ وہاں جا کر صفائی کا خیال نہیں رکھتے۔ وہاں مہیا کی گئی سہولیات کو بہتر طریقے سے استعمال نہیں کرتے اور بین الاقوامی سطح پر بھی ملک کی بدنامی کا باعث بنتے ہیں۔
یہی ہمارے عوام جب کبھی قسمت سے لندن چلے جاتے ہیں تو وہاں فورا ً ڈسٹ بن کا استعمال کرتے ہیں کیونکہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ ابھی یہاں پر جرمانہ ہو جائے گا۔
پاکستان میں اب اگر دیکھا جائے تو نائن الیون اور اکنامک کرائسس کے بعد سیاحت کو کافی نقصان پہنچا ہے۔ انیس سو ستر کی دہائی میں پاکستان میں سیاحت کی صنعت اپنے عروج پر تھی۔ اس وقت ہر سال پانچ لاکھ افراد پاکستان کے سیاحتی مقامات کو دیکھنے آتے تھے۔
اکتوبر دو ہزار چھ میں مشہور اخبار دی گارجین نے لکھا تھا کہ’’ پاکستان میں دنیا کے بہترین پانچ سیاحتی مقامات موجود ہیں جن میں ٹیکسلا، لاہور، جھیل سیفالملوک، قراقرم ہائی وے اور کریم آباد شامل ہیں۔ ‘‘ (بحوالہ وکی پیڈیا)۔
پاکستان میں بے انتہا سیاحتی مقامات موجود ہیں کیونکہ قدرت نے ہمارے ملک کو بے حد فیاضی سے اپنی نعمتوں سے نوازا ہے۔ وادی کیلاش کا اگر ذکر ہو تو یہاں کی ثقافت آنے والوں کا دل موہ لیتی ہے یا شندور کا پولو میلہ ہو ، سبھی اپنی جانب سیاحوں کی توجہ مبذول کرواتے ہیں ۔ لاہور میں مغلیہ فن تعمیر کا ذکر ہو تو بادشاہی مسجد، مقبرہ جہانگیر اور شاہی قلعہ دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ کے پی کے میں جھیل سیف الملوک، آنسو جھیل، کاغان، سوات، ناران یا کوئی بھی پُرفضا مقام ہو یہاں پر سیاح کھچے چلے آتے ہیں۔
آزاد کشمیر کو ہی دیکھ لیں تو وہاں بنجوسہ جھیل، رام کوٹ قلعہ اور پیر چناسی بھی خوبصورتی اور دلکشی کا مرکز ہیں۔ کبھی تاریخی کھنڈرات دیکھنے کا موڈ ہو تب بھی پاکستان کی سرزمین مالا مال ہے۔ موہنجو داڑو کی تہذیب، ٹیکسلا میں جولیا کے کھنڈرات، ان سب مقامات پر اگر کئی ماہ بھی پھرتے رہیں تب بھی تشنگی سی رہ جاتی ہے۔
دو ہزار بارہ تک ہمارے ملک میں پھر بھی سیاحت کا حال برا نہیں تھا کیونکہ یہاں ایک ملین افراد اس سال آئے، لیکن اصل مسئلہ نائن الیون کے بعد بیرونی دنیا میں پاکستان کا ایک غلط امیج کی وجہ سے بھی پیدا ہوا، جہاں پاکستان کو ایک انتہا پسند ملک کے طور پر پیش کیا گیا۔
وہیں اس کی صنعت میں بہت تنزلی ہوئی، لیکن اس سب معاملے میں کافی ہاتھ ہمارے ٹورازم والوں کا بھی ہے جنہوں نے ہمیشہ اپنا سوچا۔ حکومتی اراکین اپنے اہلخانہ کو تو بہت اہتمام سے ان مقامات پر ٹھہراتے ہیں لیکن مسافروں کے لئے کوئی خاطر خواہ انتظامات نہیں ہے۔ نلکے لگے ہیں تو ان میں پانی نہیں، پانی ہے تو سیوریج نہیں، بیڈ ہیں تو چادریں دھلی ہوئی نہیں، غرضیکہ کسی بھی طرح سے عوام کے لئے کوئی انتظام موجود نہیں ہے۔ کاغان کے جس ہوٹل میں ہم رکے وہاں چوہوں کا مٹر گشت دیکھ کر مجھے کوئی حیرت نہیں ہوئی۔
کپڑے بھی بنا استری کے پہننے پڑے کیونکہ وہاں بجلی ہی نہیں تھی۔ وہاں کے لوگ اپنی مشقت کے بعد ہی روزی کمانے کے قابل ہوتے ہیں۔ مناسب سہولیات کی وجہ غیر ملکی سیاح یہاں کا رخ نہیں کرتے۔ ان کے لئے کوئی گائیڈ نہیں ہے اور اگر کوئی بھولا بسرا گائیڈ ہے تو وہ ان کی زبان سے ناواقف ہے اور ساتھ کوئی مترجم بھی نہیں ہے۔
سیاحت پاکستان کی ایک ایسی صنعت ہے کہ جس پر بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے، اس پر تھوڑا پیسہ لگا کر بہت کمایا جا سکتا ہے۔ میرے ذہن میں بطور صحافی یہ سب باتیں آتی ہیں کہ سب سے پہلے ہمیں عالمی سطح پر پاکستان کا امیج بہتر بنانا ہے۔ اس کے لئے ہمیں پرکشش میڈیا کمپین چلانی چاہیے۔
ساتھ ہی ساتھ ٹورازم کی وزارت کو فعال کیا جائے۔ فنڈز میں خورد برد کا حساب رکھا جائے اور ذمہ داروں کو کٹہرے میں لایا جائے کیونکہ یہ بھی ایک قومی جرم ہے۔ سیاحوں کے لئے نہ صرف سرکاری بلکہ مقامی سطح پر بھی بہترین سہولیات سے مزین چھوٹے چھوٹے ہوٹل بنائے جائیں۔
شدید موسمی حالات میں ایمرجنسی سے نمٹنے کی تمام تر تدابیر ہوں۔ صفائی ستھرائی کا بھرپور انتظام کیا جائے تا کہ لوگوں کی توجہ کو یہاں مبذول کیا جا سکے، لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہم سب میں خود ذمہ داری پیدا ہونی چاہیے کہ پاکستان کی سیاحت کو ہم نے خود بچانا ہے۔