The news is by your side.

مجھے صرف کتاب ہی تو کھولنا تھی

زندگی بڑی حسین لگتی ہے جب گھر کے سب سے پسندیدہ کونے میں ایک آرام دہ کرسی پر بیٹھ کر باہر کا منظر دیکھنے کی فرصت مل جائے اور ان خوبصورت لمحوں میں کوئی سوچ دماغ کی کھڑکیوں سے آ کر نہ ٹکرائے۔ صرف وہ پرسکون، منظر، آرام دہ گوشہ ایک بڑا سا مگ کافی کا اور ایک کتاب۔

کتاب کے لئے کوئی شرط نہیں کہ وہ اچھی ہو، بڑی ہو، چھوٹی ہو ، نئی ہو پرانی ہو یا موٹی ہو۔۔ کتاب کیسی بھی ہو، ایک پرانے ساتھی کی طرح ساتھ نبھائے گی۔ دھیان بٹائے گی۔ فکرِ معاش اور یہاں وہاں کی پریشانیوں سے کہیں دور اپنی ہی دنیا میں لے جائے گی اور فرصت کے ان لمحوں میں ایک عجیب سا احساس دے گی۔ کتاب جیسی بھی ہو گی، صدیوں کے سفر کو لمحوں میں سمو دے گی اور لمحوں کی ان گرہوں کو ہر پلٹتے ورق کے ساتھ کھولتے کھولتے کب یہ سفر طے ہو جائے، پتا ہی نہیں چلے گا۔

فرصت کے ایسے ہی کچھ لمحوں کو اس آئیڈیل سے انداز میں گزارنے کے لئے میں نے زیادہ نہیں لیکن تھوڑی تیاری کر رکھی ہے۔ گھر کی ایک دیوار میں کچھ شیلفس لگوا کر اسے اپنی ننھی سی لائبریری کا نام دے رکھا ہے۔ طرح طرح کی کتابیں اس میں لا کر سجاتی رہتی ہوں اور جب بھی کبھی موقع ملتا ہے، کوئی ایک کتاب اٹھاتی ہوں اور اپنے پسندیدہ کونے میں بیٹھ کر اس کتاب کی دنیا میں جھانک کر دیکھ لیتی ہوں۔ لیکن سکون کے یہ لمحے میسر کم ہی آتے ہیں کیونکہ مجھے بھی آج کل کی تیز رفتار دنیا میں خود کو مصروف رکھنے کا بہت شوق ہے۔ سمجھ نہیں آتی کدھر بھاگ رہے ہیں مگر بھاگ رہے ہیں۔ فارغ بیٹھ کر بھی ذہنی طور پر مصروف رہنے کی عادت سی پڑ گئی ہے۔

ابھی یہی کوئی دو چار دن پہلے موبائل پر کینڈی کرش کھیل کر  جب تھک گئی تو میں نے جلدی سے ساری سوشل میڈیا کی سائٹس اپنا اولین فریضہ سمجھتے ہوئے چیک کیں، ٹویٹ کی، سٹیٹس اپ ڈیٹ کیا اور بس یہی کرتے کرتے فون نے سرخ بتی جلا دی کہ بیٹری چار فیصد تک جا پہنچی ہے۔ جلدی سے چارجر ڈھونڈنے کے لئے اپنا بستہ ٹٹولا تو دل کی دھڑکن غائب ہو گئی کیونکہ فون کا چارجر تو گھر میں اپنے سرہانے سوئچ میں لگا ہی چھوڑ آئی تھی۔ چلو۔۔ فون سے زیادہ تو میری بیٹری ڈاؤن ہو رہی تھی۔ خیر دفتر میں ایک ساتھی سے مانگ کر فون چارجنگ پر لگایا اور خود ایک اسائنمنٹ پر نکلی۔ اب جب فون ہاتھ میں نہیں تھا تو سر اٹھا کر گاڑی کی کھڑکی سے باہر دیکھنے کا موقع بھی مل گیا۔ ارے کتنا اچھا موسم ہے آج تو‘  واہ مونگ پھلی بھی آ گئی ہے‘ مال روڈ کتنی پیاری لگ رہی ہے‘ خوش قسمتی ہی سمجھ لیجیے۔ انارکلی بازار سے گزر ہو ا اور وہاں سڑک کے کنارے لگے کتابوں کے ڈھیر پر نظر پڑ گئی۔

فٹ پاتھ پر پڑی ان پرانی کتابوں میں ایسی مقناطیسی کشش تھی کہ رہا نہ گیا۔ یوں لگا جیسے یہاں دو گھنٹے دو منٹ میں گزر گئے ہوں۔ ہر کتاب کی اپنی دنیا تھی۔ دل تو چاہتا تھا ساری ہی کتابیں اٹھا لوں اور اپنے گھر کی باقی دیواروں میں بھی شیلفس لگوا کر اپنی ننھی سی لائبریری کو تھوڑا سا بڑا کر لوں لیکن جیب نے منہ چڑا دیا۔ جلدی جلدی تین کتابیں خریدیں اور واپس آ کر بیٹھ گئی اور اپنی سوچ میں گم ہو گئی۔ پھر اچانک جھماکا سا ہوا ایک دم ایسا لگا جیسے سڑک کنارے پڑی ان کتابوں سے الفاظ نکل کر فٹ پاتھ پر کھڑے ہو گئے ہوں، جیسے وہ لفظ اپنی دنیا سے نکل کر ہماری دنیا میں آ گئے ہوں۔ پھر کتابوں سے نکلے ان الفاظ نے چیخنا چلانا شروع کر دیا لیکن مجھے کچھ سنائی نہیں دے رہا تھا میں نے پریشان ہو کر راہگیروں کی طرف دیکھا کسی کو کچھ علم نہیں تھا اور شاید دکھائی بھی کچھ نہیں دے رہا تھا۔ یہ الفاظ کھڑے چیختے رہے چیختے رہے، مگر کچھ سمجھ نہ آیا اور پھر وہ واپس کتابوں میں چلے گئے۔ دفتر کی طرف واپسی کا میرا سفر خاموشی سے گزرا۔ کام سے فارغ ہو کر گھر پہنچی اور ان تینوں کتابوں کو لے جا کر میں نے دیوار کے اس ریک میں رکھ دیا۔

آج صبح جلدی اٹھ کر میں نے ایک کتاب اٹھائی اور دوسرے ہاتھ میں کافی کا بڑا سا مگ تھامے اپنے پسندیدہ گوشے میں جا بیٹھی۔ کتاب کا پہلا صفحہ میرے سامنے کھلا تھا لیکن کرسی کی پشت پر سر ٹکائے میں بند آنکھوں سے وہی منظر دیکھ رہی تھی، جہاں فٹ پاتھ پر پڑی کتابوں سے الفاظ نکل کر اپنی دنیا سے ہماری دنیا میں آ کھڑے ہوئے تھے لیکن بے آواز تھے، کیونکہ ہم ان کی دنیا سے بے خبر رہنے میں ہی خوش ہیں۔ ہم اس قدر مصروف ہیں کہ روزانہ ان کی دنیا کے بالکل پاس سے گزر جاتے ہیں لیکن اس میں جھانکنے کی اور اسے جاننے کی کوشش ہی نہیں کرتے تبھی تو ہمیں کچھ دکھائی نہیں دیتا اور اگر ہم ان الفاظ کو چیختا ہوا دیکھ بھی لیں تو سن اور سمجھ نہیں پاتے کیونکہ میری طرح بہت سے شوقین افراد کو اگر کبھی اپنی انتہائی مصروف زندگی سے کچھ فرصت مل بھی جائے تو ان کتابوں کو لا کر اپنی ننھی منی لائبریری کی زینت بنا دیتے ہیں اور پھر دوبارہ سے انتظار شروع کر دیتے ہیں، کہ کب وقت ملے اور اسی پرسکون جگہ پر کب کافی کی چسکیاں بھرتے بھرتے زندگی کی اس کتاب کے ورق کو پلٹ کر اپنے بنائے ہوئے الجھنوں کے بھنور سے نکل کر ایک نئی دنیاکے نئے رنگ دیکھ سکیں۔

اپنی بند آنکھیں کھولیں تو لگا جیسے پہلی بار آنکھیں کھلی ہوں۔ بات تو صحیح ہے اگر وقت ملنے کا انتظار کرتے رہے تو آخری وقت آ جائے گا، اور میں اس وقت کا انتظار کیوں کروں کیوں نا دھول میں اٹی ان کتابوں کو کھولوں اور زندگی کے راز ٹٹولوں۔

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں