The news is by your side.

انفرادی نہیں‘ ٹیم کے لیے پرفارنس ہونا چاہیے

پاکستان کرکٹ ٹیم چند ماہ پہلے ستمبر / اکتوبر میں آئی سی سی ٹیسٹ رینکنگ میں پہلی پوزیشن پر تھی اور اب سال 2016 کے اختتام سے قبل نیوزی لینڈ کے ہاتھوں ان کے ہوم گراونڈ میں 2 ٹیسٹ میچز کی سیریز میں بری طرح شکست کھانے کے بعد   چوتھی پوزیشن پر آچکی ہے   رینکنگ میں بہترپوزیشن کے لیے  اور دنیائے کرکٹ میں بہتر ٹیم ثابت کرنےکے  لیے ٹیم پرفارمنس اور ٹیم ورک اولین شرط ہے اس کے بغیر کوئی ٹیم بہتر یا نمبر ون نہیں بن سکتی۔

پاکستان کرکٹ ٹیم نے رواں سال 2016 میں ماہ نومبر تک 9 ٹیسٹ میچز کھیلے 5 میچز میں شکست کھائی اور 4 ٹیسٹ میچز پاکستان کے نام رہے۔

رواں سال مجموعی طور پر 13 ایک روزہ میچز کھیلے 5 جیتے , 6 ہارے اور 2 موسم و دیگر وجوہات کی بناء پر کھیلے نہ جاسکے ‘ اسی طرح رواں سال کرکٹ ٹیم نے مجموعی طور پربشمول ایشیا ٹی 20 کپ ‘ ورلڈ ٹی 20 کپ ‘ 16 میچز کھیلے جس میں 6 ہارے اور 10 جیتے۔

پاکستان کرکٹ ٹیم کی بہتری کے لیے پاکستان کے سابق کپتان انضمام الحق کافی عرصے سے پاکستان ٹیم کے ساتھ ہیں مگر اس کے باوجود بیٹسمین     اپنی غلطیوں پر قابو پانے میں ناکام نظر آتے ہیں۔ مسلسل ٹیسٹ میچز کھیلنے کے باوجود پاکستان کرکٹ ٹیم کا کوئی کھلاڑی ایسا نہیں جس نے اپنی پرفارمنس برقرار رکھی ہو ‘ اگر رواں سال مسلسل ٹیسٹ میچز کھیلنے والوں کی پرفارمنس کے اعداد و شمار نظر ڈالی جاے تو محسوس ہوگا کہ ہمارے کھلاڑی یا مینیجمنٹ ٹیم کی پرفارمنس میں بہتری لانا ہی نہیں چاہتے. رواں سال ہمارے کھلاڑیوں کی مجموعی پرفارمنس اطمینان بخش نہیں ماسوائے باؤلرز کے ۔

نیوزی لینڈ کے ہاتھوں 2 ٹیسٹ میچز سیریز میں 2 صفر سے شکست کھانے کے بعد پاکستان کا اگلا پڑاؤ ہے آسٹریلیا جہاں کی آب و ہوا کافی حد تک نیوزی لینڈ کی طرح ہی ہےجوکہ ہمارے کھلاڑیوں کے لیے بڑا چیلنج ہے ، کیا جو غلطیاں کیویز کے خلاف کی‘  ان سے سیکھ کر ہمارے کھلاڑی بہتر کھیل پیش کریں گے ؟۔

سالہا سال سے یہ دیکھنے میں آرہا ہے کہ خواہ وہ پاکستان ہو یا دوسری کوئی ایشیائی ٹیم سب آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کی پچز پر کھیلنے میں دشواری محسوس کرتے ہیں جیسے کیویز اور کینگروز کے میدانوں میں ایشیائی ٹیم کبھی سنبھل ہی نہیں سکتی ۔ہرگز ایسا نہیں ہے اگر ہم جدید ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھاتے ہوے اپنے کھیل کو بہتر بنانے کی کوشش کریں تو کچھ بھی ممکن ہے۔

آسڑیلیا کے خلاف ٹیسٹ اسکواڈ میں شامل چند کھلاڑیوں کی رواں سال کی پرفارمنس کے اعداد و شمار پر ایک نظر

یونس خان 8 ٹیسٹ میچز 15 اننگز میں 560 رنز جس میں ایک سینچری اور ایک ڈبل سینچری شامل

قومی ٹیسٹ کپتان مصباح الحق نے 8 میچز کی 14 اننگز میں 523 رنز اسکور کی

نائب کپتان اظہر علی نے 9 میچز کی 18 اننگز میں 874 رنز اسکور کیے جس میں ٹرپل سینچری اور ایک سینچری شامل ہے اظہر علی پاکستان کی جانب سے رواں سال سب سے زیادہ رنز بنانے والے کھلاڑی ہیں۔

رواں سال ویسٹ انڈیز کے خلاف زبردست پرفارمنس کی بناء پر ٹیسٹ کیپ حاصل کرنے والے نوجوان کھلاڑی بابر اعظم نے 3 ٹیسٹ میچز کی 6 اننگز میں 232 رنز اسکور کیے۔

سال 2015 میں ٹیسٹ ڈیبیو کرنے والے پاکستان کے ابھرتے ہوے اوپننگ بیٹسمین سمیع اسلم نے رواں سال نومبر تک 7 میچز کی 14 اننگز کھیلی اور 537 رنز اسکور کیے۔

ٹی 20 کپتان اور وکٹ کیپر بیٹسمین سرفراز کوئی نمایاں کارکردگی نہ دکھا سکے اور 8 میچز کی 15 اننگز میں صرف 390 رنز اسکور کیے۔

اسد شفیق بھی بری طرح ناکام نظر آے رواں سال 5 میچز کھیلے اور 242 رنز اسکور کیے۔

بالنگ کے شعبے میں یاسر شاہ نے 8 ٹیسٹ میچز کی 16 اننگز میں 40 وکٹیں لیں۔

5سال بعد انٹرنیشنل کرکٹ میں قدم رکھنے والے محمد عامر نے 8 میچز میں 25 وکٹیں لیں۔

وہاب ریاض نے 6 میچز میں 22 وکٹیں لیں۔

فاسٹ بالر سہیل خان نے 6 ٹیسٹ میچز میں 25 وکٹیں لیں۔

پاکستان کرکٹ ٹیم کا باؤلنگ اٹیک اب بھی کچھ بہتر ہے مگر ہمارا آج تک اوپننگ اور مڈل آرڈر کا مسئلہ اپنی جگہ پر موجود ہے . تمام کھلاڑیوں اور ٹیم کی مجموعی پرفارمنس رواں سال 50/50 رہی۔  ہر کھلاڑی نے صرف چند ایک اننگ میں پرفارم کیا اور باقی اننگز میں کوئی خاص پرفارمنس نہیں جس کی وجہ کھلاڑیوں کا کریز پر غیر میعاری شارٹ سلیکشن ۔ جدید دور کی ٹیکنالوجی کے باوجود کھلاڑیوں کی جانب سے ایک ہی طرز کی کرکٹ کھیلنا اور مسلسل وہی غلطیاں دہرانا ان ذمہ داران کے اوپر سوالیہ نشان ہے جو کرکٹ بورڈ اور ٹیم میں کام کرنے اور کھیلنے کے ہزاروں روپیہ لیتے ہیں ۔ اگر ایسے ہی کرکٹ ٹیم کو لے کر چلنا ہے تو کرکٹ بورڈ اور انتظامیہ کو فارغ کردینا چاہیے جب وہ جدید ٹیکنالوجی کے باوجود کھلاڑیوں کی کمزوریوں پر قابو پانے کے لیے کوئی عملی اقدام نہیں کرسکتے۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں