The news is by your side.

مردم شماری ملکی ترقی کے لئے ناگزیر

کسی بھی ملک کی ترقی کے لئے افرادی قوت کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں ۔ ملک کے مضبوط دفاع و سالمیت کے لئے اعلیٰ ذہانت کی ضرورت ہے اور ظاہر ہے کہ اس کے لئے خاص تناسب سے افراد کا ہونا ناگزیر ہے۔تاہم اگر آبادی حد سے زیادہ بڑھ جائے تو بھی ملکی وسائل پر دباؤ بڑھتا ہے جس سے ترقی کی رفتار سست ہو جاتی ہے ۔ مردم شماری کسی بھی ملک کے لئے بے حد ضروری ہے ۔

مردم شماری کی اہمیت

کسی بھی ملک کے لئے مردم شماری کی اہمیت مسلم ہے جس کی مدد سے سروے کر کے نہ صرف ملکی آبادی کا جائزہ لیا جاتا ہے بلکہ آبادی کے تناسب سے وسائل بھی دیکھے جاتے ہیں ، عوام کی فلاح و بہبود کے لئے مختلف پالیسیاں وضع کی جاتی ہیں ۔یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ ملک  کی اکثریتی آبادی کی زبان کون سی ہے ، تعلیم یافتہ اور ناخواندہ افراد کتنے ہیں ؟ شادی شدہ ، حاملہ ، بچے ، اور غیر شادی شدہ کا کیا ریشو ہے ؟ملکی وسائل تو جتنے ہیں سو ہیں ہم نے اپنی آبادی کو کنٹرول کرنا ہے اور اسکو وسائل کے مطابق سیٹ کرنا ہے جس کے لئے مردم شماری ضروری ہے ۔

مردم شماری کے حوالے سے زمبابوے کی مثال

یہاں ہم زمبابوے کی مثال لیتے ہیں کہ اس ملک کی آزادی کے بعد سے اب تک یہاں ہر دس سال کے بعد مردم شماری کی جاتی رہی ہے ۔ ۱۹۸۲ میں اسکی کل آبادی ۷۔۶ ملین افراد تھی ، ۱۹۹۲ میں ۴۔۱۰ اور ۲۰۰۲ میں آبادی بڑھ کر ۶۔۱۱ ملین تک پہنچ گئی ۔

پاکستان میں مردم شماری

پاکستان میں اب تک پانچ مرتبہ مردم شماری ہو چکی ہے ۱۹۹۸ کی مردم شماری کے مطابق ملک کی کل آبادی ۱۳ کروڑ چونسٹھ لاکھ افراد پر مشتمل تھی ۔ ۱۹۹۸ کے بعد اب تک مردم شماری نہیں ہوئی اور اسے سیاست کی نذر کیا جا رہا ہے تاہم حالیہ اقتصادی سروے کے مطابق پاکستان کی کل آبادی ۱۸ کروڑ ۸۰ لاکھ کے لگ بھگ ہے ۔

پاکستان میں مردم شماری کے بارے میں حالیہ فیصلے

پاکستان میں نواز حکومت نے ۱۸ سال کے بعد فوج کی زیر نگرانی مردم شماری کروانے کا عندیہ دیا تھا ۔ لیکن اب مشترکہ مفادات کی کونسل کے اجلاس میں اسے موخر کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جس کی وجہ ملک میں امن و اماں کی خراب صورتحال بتائی گئی ہے ، ن لیگ کی اہم رہنما اور وزیر مملکت برائے اطلاعات و نشریات مریم اورنگ زیب نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ ۲۰۱۶ کی مردم شماری کے لئے ایک لاکھ فوجیوں کی ضرورت تھی ۔ مشترکہ مفادات کی کونسل کے حالیہ اجلاس میں التوا کا فیصلہ اس لئے بھی کیا گیا ہے کیونکہ ابھی تک اس پر تمام اسٹیک ہولڈرز متفق نہیں ہیں ۔

ماضی میں مردم شماری کے حوالے سے تحفظات

انیس سو اٹھانوے میں جب مردم شماری ہوئی تھی تو پشتون قوم پرست جماعت پختونخواہ ملی عوامی پارٹی نے اس کا بایئکاٹ کیا تھا ۔ اس پر اعتراضات یہ تھے کہ پہلے پشتون اوربلوچ  آبادی مساوی تھی جب ۱۹۷۱ میں حکومت بنی تو بلوچ اکابرین تعداد میں زیادہ تھے ۔جنہوں نے پشتون آبادی ۵۰ سے ۳۰ فیصد کر دی اور بلوچوں کی آبادی ۵۰ سے بڑھا کر ۷۰ فیصد تک کر دی ۔

آئین میں مردم شماری کے حوالے سے اہم شقیں

آئین پاکستان کے دو آرٹیکل مردم شماری سے متعلق ہیں ۔ آرٹیکل ۵(۵۱) کے مطابق مردم شماری کا بنیادی مقصد قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں نشستوں کا تعین ہوتا ہے جبکہ آرٹیکل ۲(۱۶۰) کے مطابق مردم شماری کی بنیاد پر قومی مالیاتی ایوارڈ یعنی این ایف سی کا تعین کیا جاتا ہے اور اسکی تقسیم ملک کے چاروں صوبوں اور فاٹا میں ہوتی ہے ۔مردم شماری ملک میں سترہ گریڈ اور اس سے اوپر کے گریڈ کے سرکاری ملازمین کی بھرتی سے متعلق کوٹے کے لئے بھی ضروری ہوتی ہے ۔

مردم شماری کے حوالے سے مختلف جماعتوں کے تحفظات

مردم شماری ایک اہم قومی فریضہ ہے لیکن پاکستان میں حالیہ دنوں میں اس بارے میں کوئی اتفاق رائے پیدا نہیں ہو رہا اب سوال یہ ہے کہ مختلف سیاسی جماعتوں کے اس حوالے سے کیا تحفظات ہیں؟ تو ان تمام جماعتوں کا الگ الگ موقف ہے۔

بلوچ اور پشتون

یہ دونوں قومیں اور ان کی جماعتیں ہی اصل میں زیادہ تر مردم شماری کے حق میں نہیں ہیں اس کی باقاعدہ وجوہات ہیں ۔ پشتونوں نے آج تک ماضی میں ہونے والی  کسی مردم شماری کو بھی تسلیم نہیں کیا اور اب بلوچ قوم بھی اسی طرح کر رہی ہے ۔ جس کی بنیادی وجہ بلوچستان میں لاکھوں افغان مہاجرین کی ایک بڑی تعداد کا موجود ہونا ہے ان افغان مہاجرین نے پاکستانی شہریت بھی حاصل کر رکھی ہے ۔ بلوچ قوم پرست یہ کہتے ہیں کہ اس طرح بلوچوں کی کیا نمائندگی ہے ؟ اور مردم شماری کا فائدہ بھی کیا ہے ؟ان دونوں قوموں کےخدشات درست ہیں کیونکہ افغان مہاجرین اور دیگر افراد جو پاکستان میں آگئے ہیں ان کی اپنے علاقوں میں آباد کاری کے بغیر مردم شماری بے کار ہے ۔

مردم شماری اور پاکستان پیپلز پارٹی

سابق وزیر اعلی سندھ قائم علی شاہ نے کہا تھا کہ مردم شماری کے لئے سندھ حکومت کو اب تک اعتماد میں نہیں لیا گیا ۔مردم شماری کے لئے کمیشن کا سربراہ غیر جانبدار ہوناچاہیے ۔ پیپلز پارٹی دیکھیں تو ایک بڑی جماعت ہے اس کو نظر انداز کرنا درست نہیں ۔

ایم کیو ایم اور مردم شماری

ایم کیو ایم کے دو ر ہنما ایسے ہیں جنہوں نے مردم شماری کو ایک اہم موضوع بنا کر پیش کیا ہے اور اس پر باقاعدہ دلائل سے بات کی ہے ۔ اپوزیشن لیڈر اور ایم کیو ایم کے راہنما خواجہ اظہار الحسن نے مردم شماری میں سیکورٹی اداروں کو شامل کرنے پر زور دیا ہے ۔
متحدہ قومی موومنٹ رابطہ کمیٹی کی ڈپٹی کنونئیر اور سینٹ میں انسانی حقوق کمیٹی کی چئیر پرسن محترمہ نسرین جلیل نے بھی کم و بیش انہی خیالات کا اظہار کیا ہے ۔ انھوں نے کہا ہے کہ اس ادارے کو آزاد اور خود مختار ادارے کا درجہ دیا جائے اور کسی حاضر سروس افسر کو چیف سنسر آفیسر لگایا جائے۔ یہ ادارہ ۱۹۵۱ سے ایک خود مختار ادارے کے طور پر کام کر رہا ہے ۔لیکن اس آزاد محکمے کے وفاقی شماریاتی اور ایگریکلچر شماریاتی اداروں میں ادغام سے اسکی کارکردگی اور شفافیت متاثر ہو گی ۔

حاصل بحث

کسی بھی نتیجے پر پہنچنے سے قبل یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ تمام اسٹیک ہو لڈرز کا اعتماد حاصل کیا جائے ۔ ایاز لطیف پلیجو کا یہ کہنا ہے کہ سندھ حکومت کو پہلے یہاں کی مردم شماری کروانا چاہیے تاکہ سندھ کی آبادی کو کم کر کے دکھایا نہ جا سکے ۔ مولا بخش چانڈیو کہتے ہیں کہ مردم شماری سندھ کے لئے زندگی اورموت کا مسئلہ ہے اور اس سے فرار آئین سے فرار ہے ۔ قابل غور یہی ہے کہ ملک میں مردم شماری ہر دس سال کے  بعد ہونی چاہیے تاکہ وسائل کا بہتر استعمال ہو سکے، افرادی قوت کو تعمیری کاموں میں لگایا جاسکے اور ساتھ ہی ساتھ اس اہم قومی ایشو پر اتفاق رائے پیدا کیا جائے جو سب سے اہم ہے ۔

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں