The news is by your side.

بہادر مائیں ، شہید بچے

نپولین نے کہا تھا کہ تم مجھے اچھی مائیں دو ، میں تمھیں اچھی قوم دوں گا ، لیکن ایسی اچھی بہادر ماؤں کا کیا ذکر کروں جنہوں نے وطن پر اپنے بچے نچھاور کر دئیے پھر بھی ہماری قوم اچھی قوم نہ بن سکی ۔

کیونکہ جن بچوں کی ماؤں نے انھیں پروان چڑھا کے ایک قوم تشکیل دینی تھی وہ بچے ہی نہ رہے ،تو ملک و ملت کا کیا تصور ؟ ایسے فرشتے جن کی معصوم قلقاریوں سے یہ ملک محروم ہو گیا ۔

وہ تمام  معصوم کلیاں ،وہ ننھے غنچے جو کھلنے سے پہلے ہی، پھول بننے سے پہلے سے مسل دئیے گئے ۔ وہ ننھی ننھی  آوازیں ، وہ رونقیں تو سب خواب ہو گئیں ، ماؤں کی آنکھوں کے چراغ بجھ گئے  ، امیدوں کے دئیے گل ہو گئےاور میں ، آپ اور ہم سب نے یہ سن بھی لیا اور لکھ بھی لیا کہ پشاور میں آرمی پبلک سکول میں 130سے زائد بچے شہید ہو گئے ۔

aps-post-1
ویسے یہ ’’ شہید ‘‘ کا لفظ بھی کتنا موزوں ہے ناں ہر سانحے کو کور کرنے کے لئے ، کسی جہاز کا حادثہ ہو ، کہیں پولیس ٹریننگ سکول پر حملہ ہو یا معصوم بچوں کا قتل عام یا کسی حساس ادارے  پر حملہ ہو ہم بہت آسانی سے یہ کہہ دیتے ہیں کیا کریں کہ سب کی موت تھی وہ شہید ہو گئے ، اللہ کی راہ میں قربان ہو گئے ، کتنا سہل ہے یہ چند جملے کہہ دینا خواہ یہ فقرے ارباب اقتدار ادا کریں یا ہم آپ جیسے افرادجن کے ہاتھ میں سوائےافسوس کے اور کچھ نہیں ۔

کون کہتا ہے کہ پاکستان صرف ایک مرتبہ سولہ دسمبر کو سقوط ڈھاکہ کے وقت ہی دو لخت ہوا لیکن کیا  دو برس قبل پشاور کے آرمی پبلک سکول میں سو سے زائد معصوم طالب علموں کی المناک شہادت اس سے بھی بڑا سانحہ نہیں؟ کیا تب پاکستان کا دل ٹکڑے ٹکڑے نہیں ہوا ؟۔

ایک ایسا سانحہ جس میں ایک سو چالیس سے زیادہ افراد شہید ہو گئے جن میں ایک سو بتیس طالب علم  شامل تھے ، سو سے زیادہ سویلین افراد زخمی ہوئے اور پانچ سو اساتذہ اور طالب علموں کو انتہا پسندوں نے ڈھال کے طور پر استعمال کیا ۔

میرے قلم میں اتنی طاقت نہیں کہ میں اس المناک حادثے کی جزئیات قلم بند کروں لیکن کیا کروں میں اس ملک کی ایک حساس شہری ہوں اور دکھ کے ان احساسات میں آپ کو بھی شریک کرنا چاہتی ہوں ۔
میں لکھنا تو بہت کچھ چاہتی ہوں لیکن یہ بھی  لکھنے سے میرا قلم گریزاں ہے کہ اس سانحے میں شہید ہونے والے بچوں کی تعداد بالتریب یہ ہے

تیرہ سال سے کم عمر کے بچے
7
ایسے بچے جن کی عمر تیرہ سال تھی
22

چودہ سال کی عمر کے بچوں کی تعداد
37

پندرہ سال کی عمر کے بچے
34

سولہ سال کے عمر کے بچوں کی تعداد

17

aps-post-2

سترہ سے بیس سال کی عمر تک کے بچے جو شہید ہوئے ان کی تعداد سولہ تھی جبکہ بیس سال سے اوپر کے افراد میں سکول کی پرنسپل ، اساتذہ ، پیون ، گارڈ ، لیباسٹنٹ ، سپرٹینڈنٹ ، ڈرائیور اور ہیڈ کلرک شامل ہیں اور ان کی تعداد بائیس تھی ۔

ہم ان ماؤں کے دکھ کو محسوس ہی نہیں کر سکتے ، ان کی تکلیف کا تصورہی  نہیں کر سکتے جنہوں نے اپنے جگر گوشوں کو تیار کر کےا سکول روانہ کیا ، ان کے شاید وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ اسکول جیسی محفوظ جگہ مقتل میں تبدیل ہو جائے گی  ، آخر کب تک ان شہادتوں کی موت ، اپنی غلطیوں کو چھپانے کے لئے ابدی زندگی اور حقیقی خوشی کا بے معانی  تصور ؟۔

aps-post-3

ہم اپنے بچوں کو کیوں نہیں ایسے سبق  پڑھاتے کہ وہ دشمن ہی نہ بن پائیں ؟ کیوں نہیں ہم مدارس میں اصلاحات کو بہتر بناتے ، کیوں لوگوں کو روزگار نہیں دیتے ، کیوں ایک فرقے کو دوسرے فرقے سے برسر پیکار دیکھ کر مسرت محسوس کرتے ہیں ؟۔

اپنے ہی بچوں کو کیوں تہذیب نہیں سکھاتے ؟ آج کی تحریر ان ماؤں کے نام جن کے دل اب بھی دکھی ہیں جن کی آنکھوں کے آنسو اب بھی نہیں تھم رہے ، جو اب بھی اپنے بچوں کی واپسی کی منتظر ہیں ، جن کی نگاہیں اب تک دروازے پر لگی ہوئی ہیں کہ شاید ان کا راج دلارا واپس آجائے ، چھوٹے بچوں کی مائیں تو یہی سوچتی رہیں گی ناں کہ ان کے بچے تو قبر میں بھی چین سے  نہ سو پائیں گے کیونکہ معصوم بچوں کو تو ماؤں کے ساتھ سونے کی عادت ہوتی ہے ناں ، تنہا وہ ڈرتے ہیں ۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں