The news is by your side.

الن کلن کی باتیں: کچرے کا ڈھیر

’’ایک وقت تھا جب کراچی کی سڑکوں کو پانی سے دھویا جاتا تھا ۔لیکن آج شہر کچرے کا ڈھیر بن گیا ہے۔‘‘
’’بات تو’ کمال‘ کی کردی۔‘‘
’’کمال کی بات نہ کروں تو کیا اس کچرے کے ڈھیر میں جمال کی بات کروں؟‘‘
’’سڑکیں تو آج بھی پانی سے دھلتی ہیں لیکن دیکھنے والی نظر چاہیے۔‘‘
’’کہاں سے لاؤں ایسی کمال کی نظر کہیں نظر نہ لگ جائے۔‘‘
’’پہلے تو صرف ایک بار سڑک کو پانی سے دھویا جاتا تھا لیکن اب تو بار بار دھویا جاتا ہے۔ کبھی گٹر کے پانی سے ،کبھی سیوریج کے پانی سے اور سال میں ایک یا دو دفعہ تو بارش کے پانی سے بھی دھویا جاتا ہے۔‘‘
’’تبھی تو میں کہوں یہ سڑکیں آخر غائب کہاں ہوجاتی ہیں۔ اتنا دھویا ہے کہ اب سڑکوں کا نام و نشان ہی مٹ گیا ہے۔ ‘‘
’’اسی لیے اس کی تلاش کے لیے کھدائی کی جاتی ہے کہ کہیں اس کے آثار مل جائیں تو اسے بھی دھویا جاسکے۔‘‘
’’ مونجوڈرو کے آثار تومل گئے لیکن اس حکومت کے کہیں نہیں مل رہے۔‘‘
’’حکومت سندھ کے لیے تواشتہار دینا پڑے گا کہ جہاں کہیں ملے اسے وہیں دفن کردیں کیونکہ عوام کا بہت خرچہ ہو رہا ہے۔‘‘
’’حکومت سندھ کو تلاش کرنے کی ضرورت نہیں ٹی وی میں دیکھو تو مل جائے گی کسی نہ کسی جگہ دورے پر ہوگی۔‘‘
’’یہ اتنے دورے کرتے ہیں پھر بھی انہیں کچھ نہیں ہوتا۔ کہیں اتنے دورے عوام کو پڑیں تو کچھ نہ کچھ ضرور ہوجائے۔‘‘
’’اب تو تم بس الیکشن کا انتظار کرو۔ پھر دیکھو کیسے حکومت سڑکوں پر نظر آئے گی۔‘‘
’’ سڑکوں پرتو جب نظر آئے گی جب سڑکیں بچیں گی ، ابھی تو سب نام و نشان مٹتے جارہے ہیں۔‘‘
’’بس یہ کچرے کا ڈھیر باقی رہ جائے گا ۔‘‘
’’چلو کچھ تو بچے گا الیکشن تک۔‘‘
’’ الیکشن میں تو ابھی بہت وقت ہے اس سے پہلے گورنر کی سلیکشن تو ہوجائے ۔‘‘
’’ٹھیک کہتے ہو۔ قائد اعظم کے بعد یہ دوسرے گورنر تھے جو اپنے عہدے پر فوت ہوئے۔ ورنہ تو عہدہ ہی فوت ہوتا ہے۔‘‘
’’ اب ایسے گورنر کہاں ملیں گے؟‘‘
’’ ایدھی ہومز میں تلاش جاری ہے ۔‘‘
’’میرے خیال سے تلاش کے لیے آثار قدیمہ والوں سے رابطہ کرنا چاہیے۔‘‘
’’کوئی فائدہ نہیں کیونکہ اگر آثار قدیمہ ہوتا تو سائیں قائم علی شاہ کبھی وزارت سے محروم نہ ہوتے۔‘‘
’’ابھی تو کوئی بھی آئے ،کوئی بھی جائے سندھ میں کوئی فرق نہیں پڑنے والا۔‘‘
’’عوام جب تک اس کچرے کے ڈھیر کو خود ٹھکانے نہیں لگائے گی یہ کچرے کا ڈھیر کبھی ختم نہیں ہوگا اسی طرح زندہ رہے گا۔‘‘
’’ تو پھر چلو اس کچرے کے ڈھیر کو خود ہی کہیں ٹھکانے لگاتے ہیں۔‘‘
’’چلو۔۔۔!!‘‘

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں