The news is by your side.

ہم عبادت نہیں احسان کرتے ہیں

اف مجھے تو بہت پیاس لگ رہی ہے ، آج مجھے دفتر تو بالکل نہیں آنا چاہیے تھا ، وقت ہی نہیں گذر رہا ، گھر میں نجانے کیا پکا ہو گا ؟ جی یہ ہمارے اردگرد کی کہانیوں میں سے ہی ایک کہانی ہے ۔ آپ سب بھی حیران ہوں گے کہ اوائل رمضان میں یہ کیا کہانی شروع ہوگئی۔

رمضان المبارک کے روزے یقینا تمام عالم اسلام کے لئے ایک سعادت سے کم نہیں لیکن یہ صرف  اللہ تعالی ہی جانتا ہے کہ کس نے صرف اس کی خوشنودی کے لئے یہ عمل سرانجام دیا ہوگا ؟ اور کس نے محض دکھاوے کی مشقت کاٹی ہو گی اور دن بھر بھوکا پیاسا رہنے کو ہی روزہ قرار دیا ہوگا ۔

 رمضان المبارک سے قبل شبِ معراج کے دن میں نے اپنے محلے میں ایسا ہی سماں دیکھا ایک میلاد پر گئی تو وہاں دو تین خواتین کو خصوصی پروٹوکول دیا جارہا تھا ، استفسار پر معلوم ہوا کہ انھوں نے آج ’’ روزہ ‘‘ رکھا ہوا ہے ۔

ہمارے دفتر میں بھی کم و بیش یہی ہوا ایک محترمہ فرمانے لگیں ’’ یار پتہ نہیں روزہ کب کھلے گا اتنی بھوک لگ رہی ہے ، برداشت ہی نہیں ہو رہا ، ویسے رمضان کے ساتھ ساتھ شعبان کے روزے رکھنے کا ثواب بڑا ہوتا ہے ، شکر ہے کہ ہم نے رکھ ہی لیا ‘‘ خیر اللہ اللہ کر کے دفتری اوقات ختم ہوئے اور اب شفٹ کی گاڑی ملی تو یہاں بھی روزے داروں کی ہی سنی گئی کہ جناب ہم نے روزہ رکھا ہے ہمیں پہلے ڈراپ کیا جائے ۔

اب کوئی پوچھے کہ روزہ آپ نے اپنی مرضی سے رکھا ہے کسی کی ہدایت پر نہیں ، کسی نے آپ کو مجبور نہیں کیا تھا کہ آپ فاقہ کریں ، بھوکے پیاسے رہیں۔ خود ہی بتائیں روزہ آپ نے خود کو نمایاں کرنے کے لئے رکھا ہے یا اللہ تعالی کی خوشنودی کے لئے ؟

 ایک تو اس قسم کے لوگ ہیں جو عبادت کو احسان سمجھ کر کرتے ہیں اور ایک درجہ ایسے لوگوں کا ہے کہ جو اپنی شیخی بگھارتے تو ہیں ہی لیکن ساتھ ہی دوسروں کو مفت کے مشورے بھی دئیے جاتے ہیں ، خدا کے عذاب سے بھی ڈرایا جاتا ہے حال ہی میں میں نے ایک صاحب کو جو بہت روزے دار ہیں اپنی کولیگ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ مجھے خود شوگر ہے اور میں روزہ رکھتا ہوں اور تم جوان جہاں ہو کر بھی اپنے سر گناہ لے رہی ہو ( یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس کولیگ کو ڈاکٹر نے ذیابیطس کے لو ہوجانے کی وجہ سے روزہ رکھنے سے منع کیا ہے ) ۔

 ہمارے محلے میں شیخ صاحب رہتے ہیں ہرسال ما شااللہ انھیں حج کی سعادت نصیب ہوتی ہے ، یہ الگ بات ہے کہ دن رات ان کے گھر سے ملازموں کو ڈانٹنے کی اور گالیوں کی صدائیں سنائی دیتی ہیں ۔ ان سے آگے گھر ایک خاتون عالمہ کا ہے جن سے مجھے کم ازکم بہت بچ کے گذرنا پڑتا ہے کہ وہ ہمیشہ یہی کہتی ہیں کہ تم نے بال کٹوائے ہوئے ہیں اور قیامت کے دن تمھیں عذاب بھی ہوگا ۔ ہمیں ہی دیکھ لو کبھی بالوں کو قینچی تک نہیں لگوائی کیونکہ ظاہر ہے کہ ہم عبادت گذار ہیں ۔ کبھی ہاف سیلیوز نہیں پہنیں کیونکہ ہم شرعی پردہ کرتے ہیں ۔ روز محشر سے ڈرو ، تم جیسیوں نے اللہ تعالی کو کیا منہ دکھانا ہے ؟ یہ فیشن وغیرہ ادھر ہی رہ جانے ہیں کچھ دین کی بھی فکر کرلو۔ قبر کے عذاب سے ڈرو وغیرہ وغیرہ

یہی حال آپ نے رمضان میں بھی دیکھا ہوگا کہ اکثر لڑائیاں ہوتی ہیں لوگ ایک دوسرے کو یہ کہتے ہیں کہ میرے منہ نہ لگنا میرا روزہ ہے ۔ کمال بات تو یہ ہے کہ اسلام کے نام پر یہ باتیں کی جاتی ہیں ۔ ذرا ذرا سی بات پر لوگ دست و گریباں ہوجاتے ہیں اور سوچا یہی جاتا ہے کہ جناب ہم تو بخشے بخشائے ہیں کیونکہ ہمارا روزہ ہے ۔ یہاں پر دو طرح کے فائدے حاصل ہو جاتے ہیں ایک تو دوسرے آدمی کی تضحیک بھی کردی بہت آسانی کے ساتھ ، اسے اس کی اوقات بھی یاد دلا دی اور اپنی عبادت کی شو بھی مارلی ۔

 کبھی کبھی میں سوچتی ہوں کہ یہ کیسے مسلمان ہیں کہ جو دوسروں کی دل شکنی کرتے ہیں ، نمود و نمائش کے لئے روزہ رکھا جاتا ہے ، دوسروں پر اپنی عبادت کا رعب ڈالا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم نے اب تک اسلام کو اس کی اصل روح کے مطابق نہیں سمجھا ، بلکہ جس کو جو جو چیز بہتر اور مناسب لگی اسی کو اسلام بنا لیا خواہ اس سے کسی کی زندگی تباہ ہویا دل ٹوٹ جائے یا آپس میں محبت ختم ہو جائے۔  یاد رکھیں ہم اچھے مسلمان تب ہی بن سکتے ہیں جب ہم انسان بن جائیں! بس آج یہی کہنا تھا ۔

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں