میری بہن کے دفتر میں ایک شعبہ جاتی سربراہ اپنی نیکیوں کی وجہ سے بہت مشہور ہیں ۔لوگوں کی زبانوں پر اکثر ان کے چرچے ہوتے ہیں کہ وہ اپنی چھ ہندسی تنخواہ میں سے غربا او رمساکین کی بہت اعانت کرتے ہیں ۔ کئی یتیم خانے ان کے دم سے آباد ہیں، لوگوں کے گھروں میں راشن ڈال کے دیتے ہیں ۔
خیر قصہ آج کچھ یوں سنانے کے لئے ہے کہ آج کل نیکیاں بھی پبلسٹی کا ایک اہم ذریعہ بن گئی ہیں ۔ ہم کسی کی مالی امداد کرتے ہیں تو اسے بار بار جتاتے ہیں کہ دیکھو بھئی ہم تمھارے لئے یہ کر رہے ہیں ، ہم تمھیں نہ دیں تو دیکھو تم کیسے کھاؤ وغیرہ وغیرہ ۔
یہ سب باتیں میرے اور آپ کے معاشرے کی ہیں ہم سب یہی کرتے ہیں اور یہ سوچے سمجھے بغیر کہ ہم جس کو دے رہے ہیں ایک تو ہماری نیت ضائع ہو رہی ہے اور دوسری طرف ہم اس بندے کی عزت نفس کو بھی مجروح کر رہے ہیں ۔
تازہ واردات کچھ یوں ہے کہ میری بہن کے دفتر میں کئی اہم مواقع پر ڈبل سیلری دینے کا رواج ہے تاکہ عید اور دیگر تقریبات کی خوشیاں دوبالا ہو سکیں ۔ جس دن تمام لوگوں کو سیلری ملی اور میری ہمشیرہ گھر واپس آئیں تو ان کا موڈ آف تھا ۔ میں نے پوچھا تو پہلے تو ٹال گئیں اور بعد میں بتایا کہ بس غریب بندے کی کوئی عزت نہیں تمھیں عظیم صاحب کا پتہ ہے جو اپنے آفس بوائے رحمان کا خرچہ کسی حد تک برداشت کرتے اور گاہے بگاہے اس کی امداد بھی کرتے ہیں ۔میں ان کو بہت اچھا سمجھتی تھی کہ چلو کئی غریب لوگ ان کے دم سے آباد ہیں لیکن آج تو انھوں نے حد ہی کر دی ۔
تمام لڑکیاں اپنی ڈبل سیلری لینے کے بعد اپنے ریسٹ روم میں موجود تھیں اور شومئی قسمت رحمان بے چارا انھیں چائے دے رہا تھا ۔ عظیم صاحب وہاں آئے اور اپنے ڈیپارٹمنٹ کی چاروں لڑکیوں کو سب کے سامنے باآواز بلند کہا کہ ’’ ہن تے تہانوں ڈبل سیلری لبھ گئی ایہہ اس غریب رحمان نوں وی صدقہ خیرات ای دے دیو ، تہاڈا مال وی پاک ہو جائے گا (اب تو آپ کو ڈبل تنخواہ مل گئی ہے اب اس غریب رحمان کو بھی صدقہ خیرات کردیں آپ کا مال بھی پاک ہوجائے گا)۔ ‘‘
ہے تو بات بہت معمولی سی لیکن یقین مانیں اس سے آفس بوائے رحمان کے دل پر کیا گذری یہ وہی یا اس کا خدا جانتا ہے ۔ ہم دن رات دینِ اسلام ‘ نظام مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کرتے ہیں تو یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ اللہ تعالی کا حکم ہے کہ ایک ہاتھ سے دو تو دوسرے ہاتھ کو علم بھی نہ ہو اور یہ بھی کہ امیروں کا سارا مال ان کا نہیں زمین اور آسمان کی بادشاہت بے شک اللہ تعالی کی ہے ہر شے اسی کی ملکیت ہے اور امیروں کو اس لئے زیادہ مال دیا گیا ہے کہ وہ غریبوں کی مدد کریں ۔
بہت سے لوگ میں نے ایسے دیکھے جو خیرات تو کرتے ہیں اور کچھ نہیں کہتے لیکن ان کے اہل خانہ تعریفوں کے پل باندھتے ہیں کہ میرے ڈیڈی اتنے کا چیک دیتے ہیں ۔ میرا بھائی تم غریب لوگوں کو اتنے پیسے دیتا ہے ۔ میری امی فلاں غریبوں کے کلب میں لاکھوں دیتی ہیں ۔
میٹرک میں باقی بچوں کی طرح میں نے بھی اپنے اساتذہ سے آٹو گراف لیا اور ایک استانی کے جملے مجھے آج بھی یاد ہیں ۔ انھوں نے تحریر کیا تھا کہ ’’ نیکیاں تو خوشبودار پودے ہیں انھیں کر کے بھلا دینا چاہیے جہاں بھی یہ پودے لگے رہتے ہیں پھلتے پھولتے اور خوشبو دیتے رہتے ہیں ۔