حسین اور حسینیت ‘ محض ایک تاریخ کا نہیں بلکہ ایک سیرت اور طرزِ عمل کا نام ہے۔ ایک گائیڈ لائن کا نام بھی ہے کہ جس دین کے دامن میں ایک جانب ذبیح اللہ حضرت اسماعیل علیہ اسلام کی قربانی ہو اور دوسری جانب ذبح عظیم حضرت امام حسین ؑعالی مقام کی ان گنت قربانیاں ہوں تو یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ اس دین کی بقا کا ذمہ تو خود اللہ تعالی نے لے رکھا ہے اور یہ کسی انسان کا نہیں بلکہ خدائے بزرگ و برتر کا ہی معجزہ ہے ۔
دوسری طرف معرکہ کربلا محض ایک واقعہ نہیں بلکہ شعور ، حریت ، خودداری ، جرات ، شجاعت ، ایثار وقربانی اور صبر و انقلاب کا مکمل فلسفہ ہے ۔ اس کرب و بلا میں ننھے مجاہدوں کا بھی اتنا ہی کردار ہے جتنا کسی جواں اور پیر سالہ کا ۔
ا س کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہاں کا بچہ بچہ ہی کربلا شناس ہے جنہوں نے باوجود کم سنی کے بھی مقصد نبوی ﷺ اور اسلام کو زندہ رکھا ۔ ان کربلا کے شہیدوں نے اپنی جرات اور کردار و عمل سے اسلام کو ایک حیات جاودانی عطا کر دی ۔
آج امام عالی مقام کا نام کیوں زندہ ہے اور یزید کیوں ایک طعنہ بن کر رہ گیا کیونکہ امام حسین ؑنے ہمیشہ حق داروں کا مظلوموں کا ساتھ دیا اور اپنی جان کا نذرانہ پیش کر کے آئندہ آنے والی محکوم قوموں کو جدوجہد کے لئے ایک مضبوط پلیٹ فارم مہیا کر دیا ، امام کا فرماں ہے ’’ کہ ظلم کے خلاف جتنی دیر سے اٹھو گے اتنی ہی زیادہ تکالیف برداشت کرنا پڑیں گی ۔ ‘‘
جب امام حسین ؑمیدان کربلا میں آئے تو سولہ سو مربع میل کی اراضی قبیلہ بنی اسد سے ساٹھ ہزار درہم میں خرید لی حالانکہ وہ چاہتے تو کہہ سکتے تھے کہ میں تمھارے نبی کا نواسہ ہوں اور میرا تم پر حق ہے لیکن امام حسین علیہ اسلام تو کریم ابن کریم کے تھے وہ کسی کی حق تلفی کیسے کر سکتے تھے ؟ ۔
امام عالی مقام نے جب’ہل من ناصر ینصرنا ‘ کا استغاثہ بلند کیا تو اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ نعوذ باللہ وہ تنہا تھے‘ یا وہ غریب تھے ، ہر گز نہیں ، بہت سے مجتہدین نے اس کی تشریح یہ کی ہے کہ امام کے نعرہ ِ استغاثہ کا مقصد یہ تھا کہ حسینی مشن کو جاری رکھنے میں کون کون ان کا ساتھ دےگا ، نہ صرف میدان کربلا میں بلکہ قیامت تک کے لئے ان کا مغیث کون ہوگا ؟ ۔
آج جو کروڑوں انسان ’لبیک یا حسینؑ‘ کہتے ہیں اس کا مقصد بھی امام کے ساتھ وعدہ کرنا ہے کہ امام ہم اپنی جانیں آپ پر فداکریں ہم آپ کے ساتھی اور ناصر ہیں آپ کے مشن کو بڑھائیں گے جو کہ عین اسلام اور شریعت ہے ،امام حسینؑ جانتے تھے کہ ان کے بعد آنے والے ادوار میں بھی اسلام کو خطرہ ہوگا جسے بچانے کے لئے انھوں نے ایک بنیاد فراہم کر دی ۔
یہاں یہ بات ہمیشہ ذہن نشین رہے کہ امام کی قربانیاں کسی ایک امت ، خاص فرقے یا کسی ایک مخصوص فرد کے لئے نہیں تھیں بلکہ امام کے نزدیک انسانیت کی بھلائی مقصود تھی ، وہ سب کے آقا تھے اور ہیں خواہ وہ کوئی مسلمان ہے یا غیر مسلم ، بلکہ کہنا تو یہ چاہیے کہ امام ؑ تو ہر اس شخص کے لئے مثال ہیں جس کا ضمیر زندہ ہے ، اس کے لئے سنی ‘شیعہ یا کچھ اور ہونا ضروری نہیں ۔
اگر ایسا نہ ہوتا تو مہاتما گاندھی یہ کیوں کہتے کہ ’’ا مام حسین علیہ اسلام کی شخصیت میرے لئے باعث ہدایت ہے ۔میں نے ان سے سیکھا کہ مصیبت میں کس طرح حوصلے اور صبر سے سہارا لیتے ہیں ۔ ‘‘
اسی طرح ایک ہندو شاعر نے ہی کیا خوب عکاسی کی
اس قدر رویا میں سن کر داستان کربلا
میں تو ہندو ہی رہا آنکھیں حسینی ہو گئیں
یہ سب اس لیے کہا گیا کہ کربلا کا مقصد آفاقیت پر مبنی تھا ، کربلا کا درس یہ تھا کہ اپنےمذہب کے تحفظ کے ساتھ ساتھ محکوم لوگوں کو بھی زبان دی جائے ، کربلا کا پیغام یہ تھا کہ انسانوں میں دوسرے انسانوں سے متعلق برداشت کا جذبہ پیدا کیا جائے ، دوسرے افراد کے عقائد کا احترام بھی لازم قرار دیا جائے ۔
آج دنیا میں جتنی بھی افراتفری ہے وہ سب حسینیت اور کربلا سے دوری کا باعث ہے
،
حسینیت کا درس ایک آفاقی درس ہے ، اس میں کسی فرقے یا امت کی قید نہیں۔ خواتین نے اگر واقعہ کربلا سے کوئی درس لینا ہے تو امام حسین کی بہن بی بی زنیب سلام اللہ علیہہ سے درس لیں جو عالمہ غیر معلمہ ہیں ۔ چھ ماہ کے علی اصغر کی والدہ شہزادی رباب سلام اللہ علیہ کی جرات کو دیکھیں ۔ جواں سالہ علی اکبر کا لاشہ اٹھانے والے امام حسین کے صبر کو دیکھیں اور دونوں بازو کٹا کر دریائے فرات سے اپنی پیاری بھتیجی بی بی سکینہ سلام اللہ علیہہ کے لئے پانی لانے والے ساقی فرات حضرت عباس علمدار کو دیکھیں ، ۔
واقعہ کربلا اور امام حسینؑ کے بارے میں کچھ بھی لکھنا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے کیونکہ یہ تو وہ ہستیاں ہیں کہ جن کی تعریف و ثنا میں تو ملائک بھی مصروف ہیں ۔ مجھ خاکی انسان کی جرات کیا ہے کہ جو اس پر کچھ لکھ سکوں کہ مجھ سے بہت بہتر سخن نواز امام حسین ؑ ہیں ۔
آج صرف یہی کہنا ہے کہ انتہا پسندی اور دہشتگردی کے عفریت نے ہمیں اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے جس سے نہ بچے محفوظ ہیں اور نہ ہی ہماری مستورات ، وہ اسی وجہ سے ہے کہ ہم کربلا سے اور مشن حسین سے دور ہو رہے ہیں ۔ حالانکہ کربلا ہمارے دلوں میں زندہ ہونی چاہیے ، اس کی سچائی سے ہمارے اذہان منور ہونے چاہیں ۔ جوش ملیح آبادی نے کیا خوب کہا ہے
کربلا اب بھی حکومت کو نگل سکتی ہے
کربلا تخت کو تلوؤں سے مسل سکتی ہے
کربلا خار تو کیا آگ پہ بھی چل سکتی ہے
کربلا وقت کے دھارے کو بدل سکتی ہے
کربلا قلعہ فولاد ہے جراروں کا
کربلا نام ہے چلتی ہوئی تلواروں کا
خدائے بزرگ و برتر ہمیں حقیقی معنوں میں اسوہ حسینی پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائیں ، آمین ۔