وہ ایک شام جو میں نے ماسی رسول بی کے آنسو صاف کرتے ہوئے گزاری ‘ میری زندگی کی ایک ناقابل فراموش لیکن دکھ بھری یاد بن کر رہ گئی ، وہ شام جب ماسی اور میں دونوں ایک ساتھ بیٹھے ان کے بیٹے کا غم منا رہے تھے ۔
ماسی ہماری دور پار کی رشتے دار تھیں ، قیام پاکستان کے بعد یہاں آئیں تو بس یہیں کی ہو کر رہ گئیں ، میرے والد نے ہمیشہ انھیں اپنی بڑی بہن کی طرح احترام اور محبت دی ، ایک تو ہمارے گھر بھی ساتھ ساتھ تھے دوسرا ماسی بہت پیار کرنے والی تھیں ، بہت پرخلوص سب کی ہمدرد اور خیر خواہ ۔
ان کی عادت میں ، سوچ میں ایک مثبت پہلو تھا ، ان کا یہ ماننا تھا کہ پاکستان میں ایسی بہت سی خصوصیات ہیں جن کی بنا پر اس پر فخر کیا جا سکتا ہے ۔ خیر باتوں باتوں میں بات کہاں تک آپہنچی ، ذکر تو مجھے اس شام کا کرنا ہے جب ہم دونوں اکیلے تھے ۔ پریشان اور سراسیماں تھے ۔
ہوا کچھ یوں تھا کہ ہمارے گھر کی برابر والی گلی میں واقع امام بارگاہ جاری محفلِ میلاد کے موقع پر خود کش حملہ ہوا تھا اور دکھ بھری کہانی یہ تھی کہ ماسی کا بیٹا سبط الحسن بھی اس سانحے کی نذر ہو گیا تھا ۔
جائے حادثہ پر بہت سی امدادی گاڑیاں پہنچ چکی تھیں ‘ زخمیوں کو اسپتال منتقل کیا جا رہا تھا جبکہ اپنے پیاروں کی باقیات آہوں اور سسکیوں میں اکٹھی کی جا رہی تھیں ، ایک شور اور ہنگامے کا سماں تھا ۔
محلے میں یہ سانحہ ہونے کی وجہ سے تقریبا تمام لوگ ہی جاگ چکے تھ‘ ہر جانب جانب بہت بھیڑ تھی اور ماسی وہیں خون سے بھری ہوئی گلی میں بیٹھی کچھ تلاش کر رہی تھیں ، ان کی آنکھوں سے جیسے آنسو روٹھ گئے تھے ، بالکل سکتے کی سی کیفیت میں تھیں ، محلے کے سب لوگ انھیں دلاسہ دے رہے تھے کہ سبط کا غم بہت بڑا ہے اور اللہ آپ کو حوصلہ دے لیکن جیسے وہ کسی کی طرف متوجہ ہی نہیں تھیں ۔
لیکن میرے ابا کے قریب جاتے ہی وہ رو کر کہنے لگیں ’’ویکھ ویر ایناں چوں میرا منڈا کہیڑا ے ، ایڈے لوکی تے نئیں سن میرے کار اچ ، میرا تے کلا کلا پتر سی ناں ۔ میرے تے بوتے سارے پتر نئیں ، میرا تے کلا آسرا ای اوہی سی ، ایڈا ظلم ۔‘‘
(دیکھو بھائی ان میں سے میرا بیٹا کون سا ہے ؟ میرے گھر میں تو اتنے بہت سے لوگ نہیں تھے ، میرا تو ایک ہی بیٹا تھا ناں ، وہ میرا تو اکیلا ہی سہارا تھا ناں ، اتنا ظلم)۔
آج کی شام اس لیے بھی بھولنے کے لائق نہیں تھی کہ ماسی نے روتے ہوئے مجھے کہا کہ ’بیٹا ماں کا دل تو بہت وسیع ہوتا ہے ، اس کی اولاد تو اس کی کل کائنات ہوتی ہے ۔ ہائے او‘ ربا! میرا کلا پتر لے لیا اور میرے اندر کتنے لوگ ‘ کتنے رشتے مر گئے۔
اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں