The news is by your side.

تشدد کی تربیت آخردیتا کون ہے؟

میں آج تک یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ آخر ہر متشدد شخص ہی ہمارا ہیرو کیوں ہوتا ہے ؟ ہم اس کی نہ صرف تعریف و توصیف کرتے ہیں بلکہ اس کے کردار کی تقلید کرنا بھی ضروری سمجھ لیتے ہیں ، متشدد رویے ہمارے گھروں سے ہی جنم لیتے ہیں جہاں ہمارے لئے کوئی قابل قدر اور باعث تقلید کردار موجود نہیں ہوتا ، جہاں ایک بچہ اپنی ماں کو روز اپنے باپ سے پٹتا دیکھتا ہے تو پھراپنی آئندہ زندگی میں وہی روش اپنا لیتا ہے ،وہ اپنی بیوی کو بالکل اسی طرح پیٹتا ہے جس طرح کبھی اس کی ماں مار کھاتی تھی ۔

ہمارے اسکول اور کالج بھی اس تشدد سے خالی نہیں کیونکہ یہاں بھی بڑے بچے اپنی عمر سے چھوٹے بچوں کو تنگ کرتے ہیں ۔

یہاں بھی اپنے سے کمزور ، خصوصی بچوں اور کم دولت مند یا نادار بچوں سے تضحیک آمیز سلوک کیا جاتا ہے ۔ عملی زندگی بھی اس تشدد سے خالی نہیں ہوتی جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے مصداق کہیں نوکریوں کی بندر بانٹ ہو رہی ہوتی ہے تو کہیں مار پیٹ کی بجائے ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچی جا رہی ہوتی ہیں ۔

اسی طرح یونیورسٹیوں میں آج کل جو متشدد رویے موجود ہیں ماضی میں کبھی نہیں تھے بلکہ طلبا کی تنظیمیں سیاست سے الگ تھلگ رہنے کو ہی اپنی بہتری تصور کرتی تھیں ، ہاں یہ ضرور ہوتا تھا کہ اچھی سیاست موجود تھی اور ایسے پلیٹ فارم مہیا کئے جاتے تھے جہاں باقاعدہ سے طلبا کے مسائل حل ہو سکتے تھے ۔ یہی وجہ تھی کہ طلبا سیاست کبھی خون سے رنگین نہیں ہونے پائی تھی اور کئی بڑے رہنما سامنے آئے تھے پر اب ایسا کچھ نہیں ہے۔

لیکن سوال تو یہ ہے کہ اب ہمارے ہاں یہ گنڈاسہ کلچر کیوں فروغ پا رہا ہے ؟،تو اس کی پہلی اور بڑی اہم وجہ تو گھریلو تربیت ہے ، ہم میں سے ہر شخص جب یہ سمجھ لیتا ہے کہ دھونس ، بدتمیزی ، رعب اور سینہ زوری سےکام نکل سکتا ہے تو سیدھا کام کرنے کی کیا ضرورت ؟ تو پھر کیا باقی رہ جاتا ہے ؟ گھر میں بھی جھگڑالو بچے کی بات مانی جاتی ہے ، اس کی ہر خواہش پوری کر کے اسے ڈھیٹ اور ہٹ دھرم بنا دیا جاتا ہے لیکن اس کے بچپن کے بعد آنے والے حالات پر کسی کی نظر نہیں جاتی‘ نتیجہ یہی ہوتا ہے کہ ہم ایک ناکارہ شخص تیار کرکے معاشرے کے حوالے کردیتے ہیں ۔

اس تشدد آمیز رویے کو صرف ان پڑھ افراد کے ساتھ مشروط نہیں کیا جا سکتا ، بلکہ کئی پڑھے لکھے بااثر افراد بھی اس خامی سے مبرا نظر نہیں آتے ۔ دفاتر میں دیکھ لیں تو من پسند افراد کے کام تک خود کئے جاتے ہیں ورنہ یہ ضرور کہا جاتا ہے کہ اس کا خیال رکھنا یہ اپنا ہی بچہ ہے ، اور محنتی افراد کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے ، کیا یہ ذہنی تشدد نہیں ہے ؟کیا یہ ناانصافی اور عدم مساوات نہیں ہے ؟ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم نے تو اب لیڈروں کے بجائے لٹیروں کو جنم دینا شروع کر دیا ہے اور مقامِ افسوس یہ ہے کہ اس پر فخر کرنا بھی شروع کردیا ہے۔

نہ تو ہمارے نصاب میں کوئی قابل تقلید کردار ہے اور نہ ہی عملی زندگی میں کوئی ایسا نمونہ جس کی پیروی کی جاسکے ‘ جب ہم نے اپنی آج کی نسل کے لیے کوئی تیاری ہی نہیں کی تو پھر نئی نسل پر ہی سب الزام کیوں لگا دئیے جاتے ہیں کہ یہ نسل ہی بری ہے‘ یاد رکھیے! ہر نسل کو اپنے سے اگلی نسل سے یہی شکایت ہوتی ہے کہ وہ سنتے نہیں ہیں۔

سچ پوچھئے تو ہمارا میڈیا بھی تشدد کو رواج دینے میں پیچھے نہیں، کوئی بھی فلم دیکھ لیں ہم مارمارکر بھرکس بنا دینے والے ولن کو ہی اپنا ہیرو مان لیتے ہیں ، اگر ایسا نہیں تو پھر ہم ظلم و تشدد کے کردار دکھا کر کیا ظلم و ستم کو پروموٹ نہیں کر رہے ؟ سیاست ہے تو وہ ڈنڈے کے زور پرہورہی ہے ، اسکولوں او رمدرسوں میں بچوں کی مار کٹائی روز سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہی ہیں لیکن اس کو روکنے والا کوئی نہیں ۔

اسی دھونس اور رعب کے چکر میں ، نفسا نفسی کے چکر میں ہم نے کتنے سماج دشمن کرداروں کو پیدا کر دیا ہے ۔آج کوئی لیڈر نہیں بننا چاہتا ، کسی سے بھی پوچھ لیں کہ کیا بنو گے ، مستقبل کے کیا ارادے ہیں ؟َ تو کوئی بھی طالب علم ڈاکٹر ، پائلٹ اور سائنس دان سے آگے نہیں جاتا ، کوئی یہ نہیں کہتا کہ میں سیاست دان بن کر ملک میں ایک اچھا لیڈر بنوں گا ، اچھی سیاست کروں گا ۔

لوگ سمجھتے ہیں کہ سیاست میں صرف گنڈاسہ کلچر ہی ہے ، ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ قائد اعظم ایک ایسے لیڈر تھے جنہوں نے کبھی گنڈاسے سےمدد نہیں لی ، وہ واحد لیڈر تھے جو جیل گئے بغیر پاکستان کی قانونی جنگ جیت گئے ۔ جبر و استبداد کے بنا ایک مملکت کے خواب کو سچ کر کے دکھا دیا ۔

ایک لمحے کو یہ سوچ لیں کہ جو بات آسانی سے ہو سکتی ہے اس کے لیے سخت رویہ ہی کیوں اختیار کیا جائے ؟ اسلام میں بھی تو جبر نہیں ہے ، اسوہ رسول ﷺمیں بھی یہی ہے کہ دین کی تبلیغ میں آپ صلی اللہ و علیہ و آلہ وسلم نے زور و زبردستی سے کام نہیں لیا بلکہ ہمیشہ اپنےکردار کی برتری سے ہی لوگوں کے دل فتح کر لئے ۔ کاش ہم آج گنڈاسہ بردار شخصیات کو چھوڑ کر صرف اپنے نبی ﷺ کو ہی اپنا آئیڈیل بنا لیں اور ان کے نقشِ قدم پر خود چلیں تو شاید ہم اپنی آنے والی نسل سے امید رکھ سکیں گے کہ وہ ایک بہتر اخلاق والی نسل ہوگی۔


اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں