The news is by your side.

بابا کی بیٹی تنہا ہے

میں بہت چھوٹی تھی جب ہمارے گھر خواتین کے لئے ایک ماہانہ جریدہ آیا کرتا تھا اور اس کا نام ہی ’’اخبار خواتین تھا ، اخبار خواتین نہ صرف خواتین بلکہ مردوں میں بھی یکساں مقبول تھا کیونکہ اس میں بچوں ، بوڑھوں اور نوجوانوں سبھی کی دلچسپی کے لئے مواد موجود تھا ۔

ہم سب بہنیں ابھی سکول میں تھیں اور سب کی کوشش ہوتی تھی کہ اپنی اردو ٹھیک کرنے کے لیے اس رسالے کو پڑھیں اور کچھ سیکھنے کی کوشش کریں، لیکن بعض اوقات کچھ ایسی تصاویر اور تحریریں نظر سے گزر جاتی ہیں کہ انسان چاہتا ہے کہ کاش وہ اس نے نہ دیکھی ہوں یہ بالکل اسی طرح ہوتا ہے کہ جس طرح انسان کسی پیارے کی موت کا تصور بھی کبھی نہیں کرتا اور ہمیشہ یہی دعا مانگتا ہے کہ وہ ہمیشہ اللہ تعالی ٰکے حفظ و امان میں رہیں اور کاش موت کی یہ خبر غلط ہو ۔

خیر! اس دفعہ مجھے بھی حیرت تھی کہ جب ہاکر نے یہ رسالہ دیا تو گھر میں امی سمیت کوئی بھی نہیں پڑھ رہا تھا ‘ میں نے بھی اسی خوشی میں میگزین اٹھا لیا تھا کہ چلو شکر ہے کہ اس دفعہ انتظار اور باری آنے کی زحمت سے جان چھٹ جائے گی ۔

لیکن مجھے علم نہیں تھا کہ سرورق پر ایک چھوٹی سی معصوم سی بچی کی تصویر دیکھنے کو ملے گی جس کی آنکھوں میں آنسو تھے اور لکھا تھا کہ ’’حوا کی ایک اور بیٹی لٹ گئی‘‘۔

اس وقت میں خود اتنی کم سن تھی کہ مجھے نہیں معلوم تھا کہ زیادتی یا ریب کیا ہوتا ہے ؟ کسی بچے کے ساتھ ظلم کیا ہوتا ہے ؟ ان کی روحوں کا زخم کیا ہوتا ہے ؟ اس وقت تو میں یہ بھی نہیں جانتی تھی کہ بھیڑوں کے روپ میں بھیڑیے بھی ہوتے ہیں جو بھیڑوں کی کھال پہن کر گڈریے کو بھی بے وقوف بنا دیتے ہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے ہمارے والدین ‘ اساتذہ اور کئی بڑے ہم بچوں کی تکالیف سے بے خبر رہتے ہیں اور نتیجہ نقصان دہ نکلتا ہے۔

میں بھی باتیں کرتی کرتی کہاں آگئی ۔ مجھے تو اس بچی کی کہانی بتانا ہے ناں کہ جس کی کہانی اس اخبار میں تھی کہ وہ بھی قصور والی زنیب کی طرح کم سن اور معصوم تھی‘ اس کو گھر والوں نے ایک دکان پر چیز لینے بھیجا اور وہاں اسے دکان دار نے اپنی گود میں زبردستی بٹھا لیا اور اس کے منہ پر اپنا ہاتھ رکھ کر اس کی چیخوں کو بند کر دیا اور یہ لکھتے ہوئے مجھے اپنی تما م تر ہمت مجتمع کرنا پڑ رہی ہے کہ ایک بلیڈ سے اس کے نچلے حصے کو خون آلود کر دیا ۔

کیا آپ اس بچی کا دکھ محسوس کر سکتے ہیں کہ جو ابھی بالغ بھی نہیں ہے اورجسے اپنے جسم میں ہونے والی تبدیلیوں کا بھی ادراک نہیں ، یہ ایک الگ کہانی کہ بچی کو طبی امداد دی گئی اور اس کی جان بچ گئی لیکن کیا اس کی روح زخمی نہیں ہوئی ؟ کیا اس کا مردوں پر سے اعتبار ختم نہیں ہوا ؟ کیا وہ معاشرے میں تنہا نہیں رہ گئی ؟اور اس سے کیا فرق پڑا کہ وہ مجرم گرفتار بھی ہو گیا ۔

دراصل بشمول میرے ہم سب قوم کا بیداری کا صرف یہی ایک معیار رہ گیا ہے کہ ہم کسی سانحے کے بعد سوشل میڈیا پر مذمت کر دیتے ہیں یا کسی ایسی خبر کے آنے پر ریموٹ سے چینل ہی بدل دیتے ہیں ، کیا یہ بے حسی کی انتہا نہیں یا ہم خدا نخواستہ کسی ایسے سانحے کو اپنے ساتھ ہونے کے لئے منتظر ہیں ؟۔

کیا یہ حیوانیت نہیں ہے کہ ہم سب نے بھی بے حسی کا لبادہ اوڑھ کر اسی بھیڑیے کا روپ دھارلیا ہے جو ریوڑ میں گھس کر اپنی مکروہ اور غلیظ حرکات سے باز نہیں آرہا ، کیونکہ ظالم کے سامنے کلمہ حق نہ کہنا ، ظلم سے دب جانا ظلم کی حمایت ہی تو ہے ۔

زنیب کے ساتھ توبہت ظلم ہوا کم سن بچی کو اغوا کیا گیا زیادتی کے بعد قتل کر دیا گیا لیکن اس معاشرے کا کیا کریں جہاں ابھی بھی یزیدی سوچ موجود ہے ، کسی شاعر نے اس یزیدی سوچ کی کتنی درست معنوں میں ترجمانی کی ہے کہ

صعوبتوں کے سفر میں ہے کاروانِ حسین
یزید چین سے مسند نشین آج بھی ہے

یہ معاشرہ جہاں اچھے لوگوں پر بھی مشتمل ہے تو یزیدی طرز فکر کے لوگوں سے بھی بھرا ہوا ہے ‘ فرق صرف زمانے کا ہے تنگ نظر اور دقیانوسی سوچ تو وہی ہے ناں ۔

میں سوچتی ہوں کہ عورت کو تو ساری زندگی محبت سے زیادہ تحفظ اور عزت کی ضرورت ہوتی ہے ، پہلے اس کا باپ اس کے لئے سائبان بنتا ہے‘ پھر بھائی قوت کا ذریعہ بن جاتا ہے ، شادی کے بعد اکثر اچھے خاندان کے افراد جو ان کے شوہر ہوتے ہیں ان کی قدر کرتے ہیں اور بعد میں بیٹے تنہا نہیں رہنے دیتے ۔ سلام ہے ایسے اچھے مردوں کو جن کی ماؤں نے ان کی اچھی تربیت کی ہوتی ہے ۔جنہیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ تعظیمِ نسواں تو سنت رسولﷺ ہے کہ ہمارے نبی اکرم صلی اللہ و علیہ وآلہ وسلم اپنی بیٹی حضرت فاطمہ زہرا کی تعظیم و تکریم کے لئے کھڑے ہو جاتے تھے ۔

آج کے معاشرے کے لوگوں! ذرا سوچو تو صحیح کہ ان معصوم بچیوں کا کیاقصور ہے کہ جو آج اتنا ظلم برداشت کرتے ہوئے اپنے بابا کو پکارتی گئیں اور یہ کہتی رہیں کہ بابا ہماری مدد کو آئیے ہم تنہا ہیں ۔ ہو سکے تو آپ بھی ایک پل کو سوچیے کہ آپ کے گرد بھی کوئی بابا کی تنہا بیٹی تو نہیں ؟۔


اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں