آج دعا زہرہ کا ایک یوٹیوبر کو دیا گیا انٹرویو وائرل ہوا۔ دورانِ گفتگو اس جوڑے نے کئی انکشاف کیے ہیں جس کے بعد دعا زہرہ اور ظہیر کے حامیوں اور مخالفین میں گرما گرم بحث پھر شروع ہوگئی ہے۔ دعا زہرہ اور ظہیر کے انٹرویو کے بعد امکان تو یہی ہے کہ کم سےکم مفروضوں اور قیاس آرائیوں کا سلسلہ اب تھم جائے گا۔
دعا زہرہ نے اپنے والدین پر الزامات عائد کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں جھوٹا قرار دیا اور یہ بھی کہا کہ والدین سب کچھ بھلا کر انہیں ان کے شوہر کے ساتھ قبول کر لیں۔
کراچی کے علاقے گرین ٹاؤن کی رہائشی دعا زہرہ کی گم شدگی کی خبر رمضان کے مہینے میں ملکی ذرائع ابلاغ پر نشر ہوئی تھی اور لڑکی کے والدین مختلف چینلوں پر واقعے سے متعلق ضروری تفصیل بتاتے ہوئے کراچی پولیس سے دعا کو تلاش کرنے اور اس کی بحفاظت واپسی یقینی بنانے کی اپیل کی تھی۔ سوشل میڈیا پر جہاں لوگوں نے اس واقعے پر دکھ اور افسوس کا اظہار کیا، وہیں یہ بھی کہا جانے لگا کہ لڑکی اپنے والدین کے رویّے سے تنگ آکر خود گھر چھوڑ گئی ہے۔ بعد میں یہ کھلا کہ دعا زہرہ نے ظہیر احمد نامی لڑکے سے شادی کرلی ہے جس کا تعلق صوبۂ پنجاب کے ایک شہر سے ہے۔ کہا جارہا تھا کہ ان کی دوستی آن لائن گیم کے دوران ہوئی تھی۔
لڑکی کی گم شدگی کے بعد اس کے والدین مقدمہ درج کروانے کے لیے تھانے پہنچے تو پولیس نے ابتدا میں اغوا مقدمہ درج کرنے سے انکار کیا، لیکن بعد میں مقدمہ درج ہوگیا۔ والدین کا اصرار تھا کہ ان کی بیٹی کو اغوا کیا گیا ہے اور وہ گھر سے بھاگی نہیں ہے۔ چند دنوں کے بعد یہ انکشاف ہوا کہ دعا نے نکاح کرلیا ہے اور پھر اس کا ایک ویڈیو پیغام بھی سامنے آیا جس میں اس نے کہا کہ وہ والدین کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی اور اپنی مرضی سے نکاح کر چکی ہے، لڑکی نے یہ بھی کہا کہ ہماری زندگی کو خطرہ ہے۔
آج دعا زہرہ کی ایک یوٹیوبر سے ملاقات اور اسے دیے گئے انٹرویو کے وائرل ہونے کے بعد لوگوں کو ان کے کئی سوالوں کے جواب تو مل گئے ہیں، لیکن سچ اور جھوٹ کا فیصلہ ان کے لیے اب بھی مشکل ثابت ہورہا ہے۔
دعا زہرہ نے والدین کی جانب سے کی گئی سب باتوں کو جھوٹ قرار دے دیا۔ اس لڑکی اور اس کے شوہر ظہیر کی جانب سے بھی کئی انکشافات کیے گئے ہیں۔ سندھ ہائی کورٹ میں والدین سے ملاقات کا احوال بتاتے ہوئے دعا کا کہنا تھاکہ پیشی کے موقع پر والدہ سے یہ نہیں کہا تھا کہ میں ان کے ساتھ جانا چاہتی ہوں، والدہ نے جج کو جھوٹ بولا۔
دعا نے بتایا کہ والدین مجھے ملاقات کے دوران جج کو یہ کہنے کے لیے زور دیتے رہے کہ میں ان کے ساتھ جانا چاہتی ہوں، لیکن میں نے ان سے کہا کہ میں ایسا نہیں چاہتی۔ دعا کا کہنا تھا کہ میں نے والدہ سے کہا کہ اگر آپ چاہتی ہیں تو صلح کر لیں تاہم والدہ کا کہنا تھا کہ ہم ایسا کچھ نہیں کریں گے، بس جج سے وہ کہو جو ہم کہہ رہے ہیں، جس پر میں نے انکار کر دیا۔ یوں دعا کے مطابق اس کے والدین نے جج سے جھوٹ بولا کہ میں نے ان کے ساتھ جانے کی خواہش ظاہر کی ہے۔
مزید پڑھیں: دعا زہرہ کیس میں سندھ حکومت کابڑا اعلان
دعا زہرہ کا کہنا تھا کہ مجھے کسی نے نشہ نہیں دیا، نہ ہی بلیک میل کیا گیا اور زبردستی کوئی بیان دلوایا گیا، میں نے اپنی مرضی اور پسند سے شادی کا فیصلہ کیا۔
اسی انٹرویو میں دعا کے شوہر ظہیر نے بتایا کہ کہ ہم ’پب جی‘ پر ملے، اس کے بعد بات چیت شروع ہو گئی، لیکن دعا کے گھر والوں نے اس کے گیم کھیلنے پر پابندی لگا دی، ہم تین سال سے زائد عرصے سے رابطے میں تھے، پھر ہم نے دوسرے گیمز کے روم میں بات چیت شروع کر دی اور پھر شادی کا فیصلہ کرلیا۔
دعا نے والدین پر مختلف الزامات عائد کیے ہیں اور اپنے ساتھ نامناسب رویّے اور بدترین سلوک کی شکایت کی ہے۔ سچ کیا ہے، اور جھوٹ کون بول رہا ہے، یہ بات شاید عدالتی فیصلے کے بعد اتنی اہم نہیں رہی۔ عدالت نے فیصلہ دیا تھا کہ یہ دعا کی مرضی ہے کہ وہ والدین یا شوہر میں سے کس کے ساتھ رہنا چاہتی ہے اور دعا شوہر کے ساتھ چلی گئی۔
دعا کے والدین اب اس کیس کو کس طرح آگے بڑھائیں گے، یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ لیکن یہ ضرور ہے کہ سوشل میڈیا پر تکرار اور مباحث کا سلسلہ ابھی نہیں تھمے گا اور جہاں دعا اور ظہیر کو ‘مجرم’ سمجھنے والوں کی جانب سے ان پر لعن طعن جاری رہے گا، وہیں ان کے حق میں بولنے والے ان کے لیے دعا گو بھی رہیں گے۔