The news is by your side.

موبائل چھیننے کی حیرت انگیز واردات

گزشتہ روز دفتر کے بعد ایک دوست کے ساتھ کچھ وقت اک ہوٹل پر بیٹھ کر گزارا‘ گھر واپس آتے ہوئے فیڈرل بی ایریا میں واقع اسپورٹس کمپلکس (بالمقابل لکی ون مال) پر موٹر سائیکل پنکچر ہوگئی جسے گھسیٹتا ہوا تھوڑا آگے ہی پہنچا تھا کہ کارنر پر ایک پنکچر والا نظر آگیا جہاں کچھ موٹر سائیکل والے پہلے سے موجود پنکچر بنوارہے تھے تو میں بھی اپنی باری کے انتظار میں کھڑا ہوگیا ۔

تھوڑا ہی وقت گزرا تھا کہ دو موٹر سائیکلوں پر سوار چار جرائم پیشہ افراد آگئے اور آتے ہی فلمی انداز میں بندوق رکھ دی اور با آوازِ بلند کہا کہ کوئی اپنی جگہ سےنہیں ہلے گا۔ میں اپنا موبائل استعمال کر ہی رہا تھا تو سب سے پہلے میرا موبائل چھین کر ایک اچکے نے جیب میں ڈال لیا اور دوسری بائیک پر سوار گن بدست مجرم نے اتر کر میری پیچھے والی جیب سے بٹوہ نکال کر اپنی جیب میں رکھ لیا اور دوسروں لوگوں کے ساتھ کارروائی جاری رکھنے کے لئے آگے بڑھ گیا۔

اتنے میں جس شخص نے مجھ سے میرا موبائل لیا تھا وہ ایک بار پھر میرے سامنے موجود تھا‘ اس نے میری سامنے والی جیب کی بھی تلاشی لی تو اس میں سے ایک چھوٹا موبائل نکلا اور ساتھ ہی میرا جاب کارڈ بھی نکل آیا، ایسے میں اس کے پیچھے بیٹھا شخص مسلسل میرے سامنے کھڑے متاثرہ شخص سے نجانے کیا بڑ بڑا رہا تھا جس میں سے صرف چند باتیں سمجھ آئیں (گوگا بھائی 6 سال بعد آج ہی باہر آیا ہے‘ شہر کی اب خیر نہیں ! ۔

اس نے یہ بھی کہا کہ بتا دینا سب کو تم لوگ بھی تو جب ہمیں پکڑ لیتے ہو تو کیسے کتے کی طرح مارتے ہو خیر واپس آتے ہیں اصل موضوع پر۔ میرا جاب کارڈ دیکھتے ہی مجھ سے موبائل چھیننے والے شخص نے مجھ سے پوچھا بھائی کیا کام کرتے ہو آپ؟۔ میں نے کہا ٹی وی میں کام کرتا ہوں ۔ اس نے پھر سوال کیا کہ ٹی وی میں کیا کرتے ہو؟۔میں نے جواب دیا کہ دن بھر خبریں چلاتا ہوں۔

اس نے بے ساختہ کہا بھائی !ہماری خبر تو نہیں چلاؤ گے نہ ۔۔میں نےصورتحال کے پیشِ نظر نفی میں جواب دے دیا ‘ جس کے بعد اس نےفوراً کہا کہ اپنا موبائل واپس لے لو اور کچھ موبائل دکھاتے ہوئے پوچھا کونسا ہے؟ میں نے اپنا والا موبائل لے لیا‘ اس کے بعد اس نے اپنے دوسرے ساتھی کوجس نے میرا بٹوہ نکالا تھا‘ اس کو کہا کہ ان کا ’پرس ‘ واپس کردو۔

اور ساتھ ہی دوسرے متاثرہ شخص کا والیٹ دکھایا اور کہا یہ آپ کا ہے ؟میں نے منع کیا تو اس نے ساتھ ہی لٹنےوا لے دوسرے شخص بٹوے سے پیسے نکال کر اسے واپس لوٹا دیا اور میرا بٹوہ دوسرے لڑکے کے ہاتھ س لیا۔ صورتحال کی نزاکت کے تحت میں نے سخی سلطان بنتے ہوئے کہا کہ ’ پنکچر کے پیسے چھوڑ کر باقی نکال لو اوربس بٹوہ دے دو جس پر اس نے کہا نہیں بھائی آپ اپنا سب کچھ رکھ لو ‘ بس بھائی! مجبوری میں کر رہے ہیں یہ سب اور یہ بولتے ہوئےرانگ سائیڈ پر ہی اسپورٹس کمپلیکس کے سامنے سے ہوتے ہوئے گلشن چورنگی کی جانب روانہ ہوگئے ۔

واقعے کو کئی گھنٹے گزر چکے ہیں اور میں ابھی تک حیران ہوں کہ لوٹ مار میں ملوث افراد عموماً بے خوف اور حد سے زیادہ جلدی میں ہوتے ہیں لیکن بجانے میرے صحافی کارڈ نے ان پر جانے انجانے میں ایسا کون سا خوف طاری کیا کہ وہ لوٹا ہوا مال واپس دے کر چلے گئے اور ساتھ ہی اپنی مجبوری کا رونا بھی روگئے۔

لوٹ مارکا ایسا واقعہ آج سے پہلے کبھی سنا بھی نہیں تھا جو میرے ساتھ پیش آیا لیکن ساتھ ہی مجھے ان کے مبہم جملوں پر تشویش بھی ہے جو انہوں نے شہر کےحوالے سے کہے تھے‘ یقیناً انہوں نے میرے ساتھ اچھا سلوک کیا لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اگر ’گوگا‘ نامی کوئی پرانا اسٹریٹ کرمنل رہا ہوکر باہر آیا تھے پولیس کوچاہیئے کہ اس کی سرگرمیوں کو واچ کرے تاکہ مستقبل میں مزید شہریوں کو ان کی قیمتی املاک کے نقصان سے محفوظ رکھا جاسکے۔

 

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں