The news is by your side.

پودا تو آپ نے لگا دیا‘ پھل ساری دنیا کھائے گی

چند روز قبل دفتر سے گھرجاتے ہوئے اچانک ٹھٹہ سے ایک دوست کی کال آئی جس نے اپنے ایک عزیز کے کراچی کے علاقے صدرمیں واقع چمڑااسپتال میں ایڈمٹ ہونے کے بارے میں آگاہ کیا اورساتھ ہی اپنی پریشانی سے آگاہ کیا کہ اس کے عزیزکو ڈاکٹرزنے اسپتال سے ڈسچارج کردیا ہے اوروہ بے سرو آسرا اسپتال کے باہر بیٹھا ہے بہرحال میں نے اس کے عزیز سے ٹیلی فون پررابطہ کیا تو اشفاق نامی شخص نے بتایا کو اس کو اسی شوگر بڑھی ہونے کے سبب اسپتال سے فارغ کیا گیا بقول اشفاق ڈاکٹرز نے کہا کہ آپ کی شوگر بڑھ گئی ہے ہم آپ کو مزید اس اسپتال میں نہیں رکھ سکتے، لہذا آپ یا تو سول اسپتال چلے جائیں یا کسی دوسرے نجی اسپتال۔

خیر اس سے بات کرکے میں نے اپنے دوست سے دوبارہ رابطہ کیا اور مشورہ لیا کہ آگے کیا کیا جائے، دوست نے کہا آپ ان کو کسی طرح ٹھٹہ روانہ کروادیں خیر میں نے کہہ دیا ٹھیک ہے کوئی پرائیویٹ گاڑی ہائرکرکے ان کو ٹھٹہ روانہ کردیتا ہوں، ایک دوسرے دوست سے اس حوالے سے مشورہ کیا کہ رات کے 12 بجے کون ملے گا ٹھٹہ جانے کو تو دوست نے کہا ایسے میں تو بمشکل ہی کوئی ملے گا اور جو ملے گا وہ پیسے بہت زیادہ لے گا اورعام وقت میں ٹھٹہ کا ہائی روف کا کرایہ لگ بھگ پانچ ہزار کے قریب ہوگا تو اس ایمرجنسی میں تو آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کم ازکم سات سے آٹھ ہزارتو لگنے ہی ہیں کیونکہ ہمارے یہاں ویسے میں مجبوری فائدہ اٹھانے کا رواج کچھ زیادہ ہی ہے جس کا عملی مظاہرہ میں کئی باردیکھ چکا ہوں اوریقیناً آپ نے بھی دیکھا ہوگا۔

اچانک میرے ذہن میں خیال آیا کہ کیوں نہ کسی ایمبولینس سروس سے بات کرکے دیکھی جائے اورکراچی شہریا پاکستان میں ایمبولینس کا نام ذہن میں آتے ہیں لوگوں کے ذہن میں ایدھی ایمبیولینس سروس کا ہی نام آتا ہے تو میرے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا خیرمیں نے صحافتی تعلقات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مرحوم عبدالستار ایدھی کے پوتے سعد ایدھی سے رابطہ کیا جنہوں نے مجھے ایدھی انفارمیشن آفس کا نمبردیتے ہوئے یقین دہانی بھی کرائی کہ وہ ان کو میرے حوالے سے اطلاع بھی کردیں گے، میں نے انفارمیشن آفس سے رابطہ کیا اور ان کو مسئلہ بتایا تو انہوں کہا جی سعد بابا کی کال ہمارے پاس آچکی ہے انہوں بتا دیا ہے آپ کے مریض کے پاس پندرہ منٹ میں ایمبولینس پہنچ جائے گی خیرمیں نے ان سے پیسوں کو پوچھا تو میں حیران رہ گیا موصوف نے صرف دو ہزار روپے چارج کرنے کا کہا تو میں نے باآسانی حامی بھرلی کیونکہ کراچی سے 130 کلومیٹردور واقع شہر جانے میں صرف ایندھن ہی لگ بھگ دو ہزارکے قریب لگ جاتا ہے۔

میں نے ساتھ ہی ایک درخواست بھی کردی کہ آپ پیسے ان افراد سے نہ لیں، یہ غریب لوگ ہیں اوران کے پاس پیسے نہیں ہیں، ان کے پیسے میں آکردے دیتا ہوں۔ پھر میں نےاستسفار کیا کہ آپ کی سہراب گوٹھ برانچ میرے گھرکے قریب ہے تو کیا میں وہاں آکرپیسے دے سکتا ہوں تو جناب نے حامی بھرلی۔ تھوڑی دیربعد دوست کی بھی کال آگئی کہ ان کے عزیرایمبولینس میں بیٹھ چکے ہیں اورٹھٹہ کے لئے نکل گئے ہیں اورساتھ ہی شکریہ بھی ادا کیا، اسی وقت دوبارہ میرے پاس ایدھی سینٹر سے کال آئی اورٹیلی فون کے دوسری جانب موجود صاحب نے بتایا کہ سعد بابا نے کہا ہے کہ آپ سے آدھے فنڈز لے لیں لہذا اب آپ صرف 1 ہزار روپے دے دیجئے گا جسے سنتے ہی انتہائی خوشی ہوئی کہ اللہ کا کرم ہے ہم لوگوں پرکہ ایدھی ایمبولینس سروس جیسی نعمت ہمارے یہاں دستیاب ہے ، ساتھ ہی مرحوم عبدالستار ایدھی صاحب کے لئے دل سے دعائیں نکلیں کہ اللہ ان کی مغفرت کرے اور ان کی آئندہ نسل کو بھی خوش رکھے، ایدھی صاحب نے ایک پودہ لگایا تھا وہ اب تناوردرخت بن کر پورے شہر کو سایہ فراہم کرہا ہے اور اس کے پھل سے آئندہ کئی نسلیں مستفید ہوں گی۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں